بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چور کو پکڑنے میں لاحق شدہ اخراجات چور سے وصول کرنا


سوال

اہل محلہ  میں سے ایک شخص نے مسجد کی بیٹری چوری کی، اہلِ محلہ نے اعلان کیا کہ جس شخص نے بیٹری چوری کی ہو وہ واپس لائے،ورنہ ہم تحقیق کے لیے کتے لائیں گے، لیکن چور نے بیٹری واپس نہ لائی، پھر جب اہلِ محلہ والوں نے کتے والوں کو بلایا تو پھر آدھا گھنٹہ دیا کہ جوبھی چور کسی چپ طریقہ سے اطلاع کرلے، مگر انہوں نے کچھ اطلاع نہ دی تو جب کتے کو چھوڑا تو وہ اس چور کے گھر داخل ہوا اور وہاں سے بیٹری برآمد ہوئی اور چور نے اقرار بھی کرلیا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اہلِ محلہ والوں نے کتے والوں کو چالیس ہزار روپے دیےتھے اور وہ اس چور سے وصول کیے تو کیا اس چور سے چالیس ہزار روپے لینا شرعًا درست ہے، جب کہ بیٹری بھی سلامت واپس لی گئی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چور سے کتے والوں کے اخراجات وصول کرنا شرعا جائز نہیں تھا، یہ اخراجات کی وصولی شرعًا تعزیر بالمال ہوگی اور تعزیر بالمال کی شرعا اجازت نہیں ہے۔ہاں تنبیہ کی خاطر اس چور کو قانونی چارہ جوئی کرکے سزا دلوائی جاسکتی ہے۔ اہل محلہ نے ہی  اجرت پر کتے والوں کی خدمات حاصل کی تھیں تو  ان کی اجرت بھی اہل محلہ پر ہی لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأجرة المحضر على المدعي هو الأصح بحر عن البزازية وفي الخانية على المتمرد وهو الصحيح»

(قوله: وأجرة المحضر إلخ).... وهذا ما في الخانية. والحاصل: أن الصحيح أن أجرة المشخص بمعنى ‌الملازم على المدعي وبمعنى الرسول المحضر على المدعى عليه لو تمرد بمعنى امتنع عن الحضور وإلا فعلى المدعي، هذا خلاصة ما في شرح الوهبانية."

(کتاب القاضاء، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۷۲، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ»

(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان."

(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج نمبر ۴، ص نمبر ۶۱، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں