اگر کوئی کسی کے ساتھ نوکری کرتا ہے اور اس سے پیسے چوری کرتا ہے تو کیا اس آدمی کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟
چوری کرنا کبیرہ گناہ ہے، شرعی شرائط کے مطابق اس کا ثبوت ہوجائے تو اس کی حد بھی مقرر ہے، لہٰذا اگر مذکورہ شخص واقعتًا چوری کرتاہے تو اسے صدقِ دل سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ جس کے پیسے چوری کرتا ہے اس کا عوض دے کر معافی مانگے۔ البتہ نماز مستقل عبادت ہے اور نماز پڑھنے سے نماز کا فریضہ اس سے ساقط ہوجائے گا، تاہم اگر چور تائب نہیں ہوتا اور مسروقہ مال واپس نہیں کرتا تو چوری کے مال کی وجہ سے اسے نماز کی نورانیت نصیب نہ ہوگی، بہرحال نماز پڑھتا رہے، ان شاء اللہ نماز کی پابندی اسے گناہ سے روک دے گی۔
{وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ} (45)
ترجمہ:اور نماز کی پابندی رکھیے، بے شک نماز (اپنی وضع کے اعتبار سے) بے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔ (بیان القرآن)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144202200850
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن