لڑکا سعودیہ میں تھا، فون پر بات کرتے ہوئے اپنی بیوی سے کسی بات پر ناراض ہوکر اس نے بیوی سے کہا کہ "تم فوراً اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ، مجھے جو بھی بات کرنی ہوگی وہ تمہاری ماں سے کرلوں گا"، ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی،بیوی کی ماں سے جب فون پر بات ہوئی تو تکرار میں بیوی کی ماں نے کہا کہ تم ہماری بیٹی کو چھوڑ دو ، اس کے بار بار یہ کہنے پر شوہر نے کہا کہ "اچھا چھوڑ دیا" دوسری بار بھی کہا کہ "چھوڑ دیا" تیسری بار کہا کہ "میں نے طلاق دی"۔ لڑکا اور اس کی ساس دونوں نے ان الفاظ کی تصدیق کی ہے۔لڑکا کہتا ہے کہ طلاق کی طرف نہ میرا ذہن تھا اور نہ ہی طلاق کا ارادہ تھا، صرف ساس کے بار بار کہنے پر غصے کی وجہ سے میں نے یہ الفاظ فون پر کہے تھے، اس کے بعد میں نے ساس کو کہہ بھی دیا تھا کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی، اس کے بعد لڑکے نے سعودیہ سے آکر بیوی کو بلالیا، اب دونوں اکھٹے رہ رہے ہیں، لڑکے نے اہلِ حدیث حضرات سے طلاق نہ ہونے کا فتویٰ بھی لے لیا ہے۔
1۔سوال یہ ہے کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق ہوگئی ہے تو کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟
2۔اب ساتھ رہتے ہوئے اگر ان کی کوئی اولاد پیدا ہوتی ہے تو اس کے بارے میں بھی وضاحت فرمائیں۔
1۔ہمارے زمانے کے عرف کے مطابق "چھوڑ دیا" کے الفاظ طلاق کے صریح الفاظ بن چکے ہیں، اس لیے "چھوڑ دیا" کہنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے، خواہ طلاق کی نیت کے بغیر کہا ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب لڑکے نے اپنی ساس کے مطالبے (ہماری بیٹی کو چھوڑ دو) کے جواب میں پہلی بار یہ الفاظ کہے کہ "اچھا چھوڑ دیا" تو ان الفاظ کی وجہ سے اس کی بیوی پر ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی، پھر جب دوسری بار لڑکے نے کہا کہ "چھوڑ دیا" تو اس کی وجہ سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی، پھر جب اس نے تیسری بار کہا کہ "میں نے طلاق دی" تو ان الفاظ کی وجہ سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی اور مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے دونوں کا نکاح ٹوٹ گیا، دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوچکی ہے، اس کے بعد رجوع کر کے یا دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز نہیں تھا، اس کے بعد دونوں جتنا عرصہ ساتھ رہے وہ ناجائز تعلقات ( بدکاری ) کے زمرے میں آئے گا، دونوں پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں اور اپنے اس فعل پر اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے توبہ و استغفار کر کے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا کوئی فعل نہ کرنے کا پکا عزم کریں۔ سوال میں جس فتوی کا ذکر ہے وہ فتویٰ چوں کہ قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے مخالف ہے ؛ اس لیے یہ فتوی معتبر نہیں ہے۔
عدت ختم ہونے کے بعد خاتون کسی بھی جگہ نکاح کرسکتی ہیں، البتہ عدت کا حکم یہ ہے کہ اگر تین طلاقوں کے بعد شوہر کو یہ علم نہ تھا کہ میری بیوی مجھ پر حرام ہوچکی ہے تو عدت کی ابتدا علیحدگی سے پہلے آخری دفعہ ہم بستری کرنے کے بعد سے شروع ہوگی،یعنی زوجین کے مابین آخری مرتبہ ہم بستری ہونے کے بعد جب بیوی کی تین مکمل ماہواریاں گزر جائیں گی تو عدت مکمل ہوجائے گی بشرطیکہ بیوی حاملہ نہ ہو، ورنہ بچے کی پیدائش پر عدت مکمل ہوگی۔ البتہ اگر تیسری طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر کو یہ علم تھا کہ میری بیوی مجھ پر حرام ہوچکی ہے پھر بھی دونوں ساتھ رہتے رہے تو ایسی صورت میں تین طلاقوں کے بعد سے ہی عدت شروع ہوگئی تھی اور تین مکمل ماہواریاں گزرتے ہی عدت ختم ہوچکی ہے، اب مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ حرمت کا علم ہونے کے باوجود ہمبستری کرنے پر زنا کے احکامات جاری ہوتے ہیں اور زنا کی وجہ سے شرعاً عدت واجب نہیں ہوتی، البتہ زنا کے بعد اگر ایک مکمل ماہواری گزرنے سے پہلے عورت زانی کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے تو ایک مکمل ماہواری گزرنے سے پہلے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، نیز زنا کی وجہ سے اگر عورت حاملہ ہوگئی ہو تو بچہ جننے تک ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہوگا۔
2۔تین طلاق کے بعد ساتھ رہنے کی صورت میں اگر ان کی کوئی اولاد پیدا ہوتی ہے تو اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر تین طلاقوں کے بعد شوہر کو یہ علم نہ تھا کہ میری بیوی مجھ پر حرام ہوچکی ہے۔ بلکہ اس نےبیوی کو حلال سمجھ کر ہمبستری کی تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد شوہر کو یہ علم تھا کہ میری بیوی مجھ پر حرام ہوچکی ہے پھر بھی دونوں نے ازدواجی تعلق قائم کیا تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب نہیں ہوگا، کیوں کہ بدکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب ثابت نہیں ہوتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي. والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم. وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك."
(کتاب الطلاق، جلد:3، صفحہ:299، طبع: دار الفكر-بيروت)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معًا وإِن كانت معصية."
(ج:1، ص:529 ، ط: قدیمی)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والموطوءة بشبهة) ومنه تزوج امرأة الغير غير عالم بحالها كما سيجيء، وللموطوءة بشبهة أن تقيم مع زوجها الأول وتخرج بإذنه في العدة؛ لقيام النكاح بينهما، إنما حرم الوطء حتى تلزمه نفقتها وكسوتها، بحر، يعني إذا لم تكن عالمةً راضيةً كما سيجيء... (الحيض للموت) أي موت الواطئ (وغيره) كفرقة، أو متاركة لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا (ولا اعتداد بحيض طلقت فيه) إجماعا (وإذا وطئت المعتدة بشبهة) ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى) لتجدد السبب (وتداخلتا، والمرئي) من الحيض (منها، و) عليها أن (تتم) العدة (الثانية إن تمت الأولى) وكذا لو بالأشهر، أو بهما لو معتدة وفاة.
(قوله: الحيض) جمع حيضة أي عدة المذكورات ثلاث حيض إن كن من ذوات الحيض وإلا فالأشهر، أو وضع الحمل ... (قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لاتجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثًا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لاتستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرًا طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال، ثم وطئها في العدة عالمًا بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لايقع فيها طلاق آخر ولاتجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر."
(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة، 3/ 517، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) مبدؤها (في النكاح الفاسد) بعد التفريق من القاضي بينهما، ثم لو وطئها حدّ، جوهرة وغيرها، وقيده في البحر بحثا بكونه بعد العدة لعدم الحد بوطء المعتدة (أو) المتاركة أي (إظهار العزم) من الزوج (على ترك وطئها) بأن يقول بلسانه: تركتك بلا وطء ونحوه، ومنه الطلاق وإنكار النكاح لو بحضرتها وإلا لا، لا مجرد العزم لو مدخولة وإلا فيكفي تفرق الأبدان.
(قوله: ومبدؤها في النكاح الفاسد بعد التفريق إلخ) وقال زفر: من آخر الوطآت لأن الوطء هو السبب الموجب. ولنا أن السبب الموجب للعدة شبهة النكاح ورفع هذه الشبهة بالتفريق، ألا ترى أنه لو وطئها قبل التفريق لا يجب الحد وبعده يجب، فلا تصير شارعة في العدة ما لم ترتفع الشبهة بالتفريق كما في الكافي وغيره. اهـ. سائحاني.
قلت: ولم أر من صرح بمبدإ العدة في الوطء بشبهة بلا عقد. وينبغي أن يكون من آخر الوطآت عند زوال الشبهة، بأن علم أنها غير زوجته، وأنها لاتحل له إذ لا عقد هنا فلم يبق سبب للعدة سوى الوطء المذكور كما يعلم مما ذكرنا، والله أعلم."
(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب في وطء المعتدة بشبهة، 3 / 522، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لأن النسب كما يثبت بالنكاح الصحيح يثبت بالنكاح الفاسد وبالوطء عن شبهة وبملك اليمين."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في ثبوت النسب، 3 / 549، ط:سعید)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:
"ويتفقون كذلك على وجوب العدة وثبوت النسب في النكاح المجمع على فساده بالوطء كنكاح المعتدة، وزوجة الغير والمحارم إذا كانت هناك شبهة تسقط الحد، بأن كان لا يعلم بالحرمة ولأن الأصل عند الفقهاء: أن كل نكاح يدرأ فيه الحد فالولد لاحق بالواطئ. أما إذا لم تكن هناك شبهة تسقط الحد، بأن كان عالما بالحرمة، فلا يلحق به الولد عند الجمهور، وكذلك عند بعض مشايخ الحنفية؛ لأنه حيث وجب الحد فلا يثبت النسب. وعند أبي حنيفة وبعض مشايخ الحنفية يثبت النسب لأن العقد شبهة. وروي عن أبي يوسف ومحمد أن الشبهة تنتفي إذا كان النكاح مجمعا على تحريمه والمنكوحة محرمة على التأبيد، كالأم والأخت، وعلى ذلك فلا يثبت النسب عندهما في المحرمة على التأبيد، فقد ذكر الخير الرملي في باب المهر عن العيني ومجمع الفتاوى أنه يثبت النسب عند أبي حنيفة خلافا لهما، إلا أنه روي عن محمد أنه قال سقوط الحد عنه لشبهة حكمية فيثبت النسب. هذا بالنسبة للنسب في النكاح المجمع على تحريمه مع العلم بالحرمة."
(العدة والنسب، ج: 8، ص: 124،123، ط: دارالسلاسل - الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100005
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن