بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کا مال خریدنا جائز نہیں


سوال

کیا میں ایسے شخص سے اپنی گاڑی کا سامان لے سکتا ہوں جس کے بارے میں لوگوں کا یہ کہنا ہو کہ اس کے پاس چوری کا سامان ہوتا ہےك لہذا اس سے سامان نہ لیں اور کسی اور شخص سے سامان لیں؟

جواب

خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لیے جس چیز کو فروخت کیا جارہا ہو اس پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا ہونا، یا مالک کی جانب سے فروخت کرنے کی اجازت کا ہونا شرعًا ضروری ہوتا ہے، پس اگر کسی اور کی مملوکہ چیز کو اس کی مرضی و اجازت کے بغیر فروخت کیا جائے تو  ایسا سودا شرعًا منعقد ہی نہیں ہوتا، یعنی ظاہری طور پر ہونے والی خرید و فروخت کے باوجود بھی خریدی گئی چیز پر خریدار کی ملکیت ثابت نہیں ہوتا، بلکہ ان دونوں پر شرعًا لازم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ سودا ختم کرکے مالک کی مرضی و اجازت سے دوبارہ عقد کریں، لہذا صورتِ مسئولہ میں چوری کا سامان فروخت کرنے والا شخص چوں کہ اس کا مالک نہیں ہوتا لہذا معلوم ہونے کے باوجود اس ہی سے سامان خریدنا جائز نہ ہوگا۔

السنن الکبری للبيهقي میں ہے:

"عن شرحبيل مولى الأنصار، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

( کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ٥ / ٥٤٨، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَبَيْعُ مَا لَيْسَ فِي مِلْكِهِ) لِبُطْلَانِ بَيْعِ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ.... (وَ) الْبَيْعُ الْبَاطِلُ (حُكْمُهُ عَدَمُ مِلْكِ الْمُشْتَرِي إيَّاهُ)".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَبَيْعُ مَا لَيْسَ فِي مِلْكِهِ) فِيهِ أَنَّهُ يَشْمَلُ بَيْعَ مِلْكِ الْغَيْرِ لِوَكَالَةٍ أَوْ بِدُونِهَا مَعَ أَنَّ الْأَوَّلَ صَحِيحٌ نَافِذٌ وَالثَّانِي صَحِيحٌ مَوْقُوفٌ. وَقَدْ يُجَابُ بِأَنَّ الْمُرَادَ بَيْعُ مَا سَيَمْلِكُهُ قَبْلَ مِلْكِهِ لَهُ ثُمَّ رَأَيْته كَذَلِكَ فِي الْفَتْحِ فِي أَوَّلِ فَصْلِ بَيْعِ الْفُضُولِيِّ، وَذَكَرَ أَنَّ سَبَبَ النَّهْيِ فِي الْحَدِيثِ ذَلِكَ (قَوْلُهُ: لِبُطْلَانِ بَيْعِ الْمَعْدُومِ) إذْ مِنْ شَرْطِ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ، وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا بِبَيْعِهِ لِنَفْسِهِ، وَأَنْ يَكُونَ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ، مِنَحٌ".

( كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ٥ / ٥٨ - ٥٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں