بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چوڑی دار پاجامہ پہننا


سوال

کیا چوڑی دار پاجامہ پہننا سنت ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  چوڑی دار پاجامہ پہننا سنت سے ہر گز ثابت نہیں، بلکہ مردوں کے لیے مکروہ ہے،حتی کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ  لکھتے ہیں:

"چوڑی دار پاجامہ اور پتلون بے شرمی کالباس ہے"۔

(حیلے بہانے، ج۳، ص۵۱)

البتہ چوڑی دار پاجامہ کے اوپر اگر کُرتایا قمیص ہو  جس سے اعضاءِ جسم کی کیفیت وہیئت ظاہر نہ ہو، یعنی بالکل چست نہ ہو تو خواتین کے لیے گھر میں دیگر خواتین اور محرم مردوں کے سامنے پہننا جائز ہے، البتہ غیر محرم کے سامنے یا کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر  نکلنے کی صورت میں مکمل پردے کا اہتمام ضروری ہے۔ اور اگر چوڑی دار پاجامہ کے اوپر ایسا لباس نہ ہو جس سے اعضاءِ مستورہ چھپتے ہوں (یعنی بالکل چست ہو اور اعضاء کی ہیئت ظاہر ہوتی ہو) تو محارم اور خواتین کے سامنے بھی اسے پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نیز ایسا چست پاجاما جس میں اعضا کی ہیئت ظاہر ہوتی ہو مردوں کے لیے پہننا بھی مکروہِ تحریمی ہوگا۔

امداد الفتاوی میں ہے:

چوں کہ اس میں تشبہ بالفساق ہے، اس لیے مکروہ ہے۔

(امداد الفتاوی، ج۴، ص ۱۲۷، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

کذا فی فتاوی محمودیہ (ج ۱۹، ص۲۷۰، و ۳۱۱، ط: جامعہ فاروقیہ)

في مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2782):

4346 - وعن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم: «من لبس ثوب شهرة في الدنيا ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيامة» ". رواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه.

(من لبس ثوب شهرة) : أي ثوب تكبر وتفاخر وتجبر.... قال القاضي: الشهرة ظهور الشيء في شيئه بحيث يشهر به صاحبه، والمراد بثوب شهرة ما لا يحل لبسه، وإلا لما رتب الوعيد عليه، أو ما يقصد بلبسه التفاخر والتكبر على الفقراء والإذلال بهم وكسر قلوبهم، أو ما يتخذه المساخر ليجعل به نفسه ضحكة بين الناس، أو ما يرائي به من الأعمال، فكني بالثوب عن العمل وهو شائع قال الطيبي: والوجه الثاني أظهر لقوله: ألبسه الله ثوب مذلة وفي النهاية: أي أي أشمله بالذل كما يشمل الثوب البدن. 

في الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 365):

وإن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها وهذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة  بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ.

وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ لقوله  عليه الصلاة والسلام:  «من تأمل خلف امرأة ورأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة» ولأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظرا إلى ثيابها وقامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى خيمة هي فيها ومتى كان يصف يكون ناظرًا إلى أعضائها اهـ. أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفًا لا ترى البشرة منه.

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144201200139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں