میں ایک فیکٹری میں چوکیدار کا کام کرتا ہوں، 24 گھنٹے ڈیوٹی ہے، مسجد فیکٹری سے دور ہے، ڈر لگتا ہے کہ کوئی چوری نہ کرے؛ اس لیے اکیلے نماز پڑھتا ہوں تو کیسا رہے گا ؟
حنفیہ کے ہاں نماز باجماعت ادا کرنا سنتِِ مؤکدہ ، واجب کے قریب ہے، احادیثِ مبارکہ میں ترکِِ جماعت پر سخت وعیدیں آئی ہیں، بلاعذر جماعت ترک کرنا گناہ ہے۔ ہر مسلمان مرد پر ضروری ہے کہ وہ مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرے، ملازمت ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے مستقل جماعت کو ترک کردیا جائے، لہٰذا بصورتِ مسئولہ آپ حتی الامکان کوشش کریں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ، فیکٹری مالکان سے بات کریں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی متبادل انتظام کریں، اگر مسجد جاکر نماز پڑھنے کی کوئی صورت نہ بنے تو فیکٹری میں ہی چند لوگ مل کر باجماعت نماز کا اہتمام کریں؛ تاکہ مستقل جماعت چھوڑنے کا گناہ نہ ہو۔
سنن النسائي (2/ 106):
"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية»۔ قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة."
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):
"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)."
حلبي کبیر میں ہے :
" وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکها من غیر عذر یعزر، وترد شهادته، ویأثم الجیران بالسکوت عنه، و هذہ کلها أحکام الواجب." (ص/۵۰۹ ، فصل في الإمامة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن