ہندوستان کی سرکار نے لڑکیوں کی شادیوں کے لیے ایک اسکیم بنائی ہے، جس میں لڑکی کے ماں باپ لڑکی کا ایک بینک اکاؤنٹ کھلوا تے ہیں، جس میں ہر مہینے ایک ہزار روپے جمع کیے جاتے ہیں جو چودہ سال تک جمع ہوتے ہیں، چودہ سال میں ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار روپے جمع کیے جاتے ہیں اور لڑکی کی عمر 21 سال ہو جاتی ہے، اس وقت سرکار لڑکی کی شادی کے لیے تقریبًا چھ لاکھ روپے دیتی ہے، کیا اس رقم سے لڑکی کی شادی کرنا صحیح ہے؟ اور یہ رقم جائز ہے یا نہیں؟ مکمل جواب تحریر فرمائیں!
صورتِ مسئولہ میں سوال میں مذکورہ اسکیم کا طریقہ کار سودی منافع حاصل کرنے کے حکم میں ہے، کیوں کہ والدین کا ہر مہینہ اکاؤنٹ میں ایک ہزار روپیہ جمع کروانے کی حیثیت قرض کی ہے اور قرضہ کی یہ رقم چودہ سال میں تقریبًا ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور قرض کی یہ رقم حکومت (سرکار) کی طرف سے متعین کردہ مقدار تک پہنچنے پر حکومت (سرکار) کی طرف سے اضافے کے ساتھ کل چھ لاکھ دے دیے جاتے ہیں، لہٰذا مذکورہ اسکیم میں قرض کے بدلہ جو اضافی رقم دی جارہی ہے اس رقم کا لینا اور اسے کسی بھی مد میں خرچ کرنا ناجائز اور حرام ہے؛ اس لیے کہ احادیث کی روشنی میں یہ ضابطہ مسلّم ہے کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، بعض روایات میں اسے صراحتاً ’’ربا‘‘ کہا گیا ہے اور بعض صحیح روایات میں اسے ’’ربا‘‘ میں شامل کیا گیا ہے؛ لہٰذا حکومت (سرکار) کی اسکیم کے تحت 14 سال تک ماہانہ ایک ہزار روپے جمع کرواکر 14 سال بعد حکومت (سرکار) سے لڑکی کی شادی کروانے کے لیے چھ لاکھ روپے وصول کرنا اور ان پیسوں سے لڑکی کی شادی کروانا جائز نہیں ہے، بلکہ حکومت (سرکار) سے صرف اتنی ہی رقم وصول کرنے کی گنجائش ہے جتنی رقم مجموعی طور پر 14 سال میں جمع کروائی گئی ہو۔
صحيح البخاري (5/ 38):
"حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سعيد بن أبي بردة، عن أبيه، أتيت المدينة فلقيت عبد الله بن سلام رضي الله عنه، فقال: «ألا تجيء فأطعمك سويقًا و تمرًا، وتدخل في بيت»، ثم قال: «إنك بأرض الربا بها فاش، إذا كان لك على رجل حق، فأهدى إليك حمل تبن، أو حمل شعير، أو حمل قت، فلا تأخذه فإنه ربًا»."
ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا: کیا آپ (ہمارے پاس) نہیں آئیں گے کہ میں آپ کو ستو اور کھجور کھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے)، پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):
"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»."
"اعلاء السنن"میں ہے:
"قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة أو هدیة فأسلف علی ذلك، إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".
(14/513، باب کل قرض جر منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن)
"فتاوی شامی" میں ہے:
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".
(5/166، مطلب کل قرض جر نفعًا، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200563
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن