بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چندے کی رقم سے خریدی ہوئی زمین کا حکم


سوال

چندہ سے خریدی ہوئی زمین وقف کے حکم میں ہوگی یا نہیں؟ اگر وقف کے حکم میں نہیں ہوگی تو کس کی ملکیت کی ہوگی ؟ کیا اس میں مجلس شوریٰ اور ناظم کواس  میں تصرف کا حق ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چندہ سے جو زمین خریدی جائے وہ صرف خریدنے سے وقف نہیں ہوتی، بلکہ متولی یا مجلس شوریٰ مسجد یا مدرسہ جب مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کی نیت کریں اس وقت وقف  ہوجائے گی، لہذا جب تک وقف کی نیت نہ ہو   اور اس میں تصرف کرنے سے مسجد یا مدرسہ کو فائدہ ہو تو متولی اس میں تصرف کرسکتا ہے،لیکن اگر اس  میں تصرف کرنے سے مسجد  یا مدرسہ کو فائدہ نہ ہوتو اس میں تصرف نہیں کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(اشترى المتولي بمال الوقف دارًا) للوقف (لاتلحق بالمنازل الموقوفة ويجوز بيعها في الأصح)؛ لأن للزومه كلامًا كثيرًا و لم يوجد هاهنا."

وفي الرد:

"عن القنية إنما يجوز الشراء بإذن القاضي لأنه لايستفاد الشراء من مجرد تفويض القوامة إليه فلو استدان في ثمنه وقع الشراء له. اهـ.

قلت: لكن في التتارخانية قال الفقيه: ينبغي أن يكون ذلك بأمر الحاكم احتياطًا في موضع الخلاف.

(قوله: ويجوز بيعها في الأصح) في البزازية بعد ذكر ما تقدم وذكر أبو الليث في الاستحسان يصير وقفا وهذا صريح في أنه المختار. اهـ. رملي.

قلت: وفي التتارخانية المختار أنه يجوز بيعها إن احتاجوا إليه."

(کتاب الوقف، مطلب اشترى بمال الوقف دارا للوقف يجوز بيعها، ج:4، ص:416، ط:سعید)

فتای ہندیہ میں ہے:

"متولي المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتًا أو دارًا ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء، هذه المسألة بناء على مسألة أخرى إن متولي المسجد إذا اشترى من غلة المسجد دارًا أو حانوتًا فهذه الدار و هذا الحانوت هل تلتحق بالحوانيت الموقوفة على المسجد؟ و معناه أنه هل تصير وقفًا؟ اختلف المشايخ رحمهم الله تعالى قال الصدر الشهيد: المختار أنه لاتلتحق و لكن تصير مستغلًا للمسجد."

(کتاب الوقف، الباب الخامس في ولاية الوقف وتصرف القيم في الأوقاف، ج:2، ص: 417، ط:رشیدیة)

فتاوى قاضي خان میں ہے: 

"المتولي إذا اشترى من غلة المسجد حانوتاً أو داراً أو مستغلاً آخر جاز؛ لأنّ هذا من مصالح المسجد، فإذا أراد المتولي أن يبيع ما اشترى و باع اختلفوا فيه قال بعضهم: لايجوز هذا البيع؛ لأنّ هذا صار من أوقاف المسجد، و قال بعضهم: يجوز هذا البيع، و هو الصحيح؛ لأنّ المشتري لم يذكر شيئًا من شرائط الوقف فلايكون ما اشترى من جملة أوقاف المسجد.

أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهناً أو حصيراً أو حشيشاً أو آجراً أو جصاً لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم و قال: تفعل ما ترى من مصلحة المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء."

(کتاب الوقف، ج:3، ص: 167)

فتاوی محمودیہ میں ہے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"جو عمارت چندہ کرکے بنائی گئی ہو یا خریدی گئی ہو، وہ ابھی وقف نہیں ہوئی جب تک اس کو وقف نہ کردیا جائے اور مصالحِ مدرسہ کا تقاضا ہے کہ اسے اب سے وقف کردیا جائے۔"

(ج:15، ص:580)

اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں ہے:

"چندہ کا روپیہ وقف نہیں ہوتا، اس لیے اس کو جائیدادِ موقوفہ میں شامل نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر اس روپیہ سے کوئی شئی قابل وقف خرید کر مسجد میں وقف کردی جائے تو وہ شئی وقف ہوگی۔"

(ج:15، ص:161)

 امداد الفتاوی جدید میں ہے: 

"سوال(۱۴۵۹) : قدیم ۲/۵۷۲ -  چندہ کے احکام وقف کے ہوں گے یا اور مہتمم تنخواہ مقررہ سے زائد بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

الجواب: یہ وقف نہیں۔ معطیین کا مملوک ہے۔اگر اہل چندہ صراحۃً یا دلالۃً انعام دینے پر رضا مند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں۔"

(ج:5، ص:565)

 کتاب النوازل  میں ہے:

"سوال(۱۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کوئی قطعہ زمین مدرسہ کے اِحاطہ سے متصل چندہ عمومی یا خصوصی سے خریدنے کے بعد کب سے موقوفہ شمار ہوگی؟ جب کہ اَلفاظِ مخصوصہ میں سے کوئی لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہو، آیا بنیتِ وقف یا بنیتِ تابید خریدنے سے موقوفہ ہوجائے گی؟ یا کوئی عمارت تعمیر کردینے سے وقف تام ہوجائے گی؟ حالاںکہ رکن وقف (الفاظِ مخصوصہ) نہیں پایا گیا؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ کی طرف سے جو زمین چندہ سے خریدی جاتی ہے، وہ محض خریدنے سے وقف نہیں ہوجاتی ہے؛ بلکہ مدرسہ کی ملکیت شمار ہوتی ہے، پھر اگر اہلِ مدرسہ اُسے باقاعدہ وقف کردیں یا مسجد بنادیں، اُس کے بعد ہی اُس پر وقف کا حکم جاری ہوگا۔"

(ج:13، ص:58)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں