بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چائنیز کھانے کے جواز کے بارے میں راہ نمائی


سوال

1۔  میں ایک چائنیز کمپنی میں کام کرتا ہوں، کمپنی ہمیں خوراک  دیتے  ہیں جو   کہ  پاکستانی کوک  تیار  کر رہے  ہیں، لیکن بعض اوقات چائنیز بھی تیار کرتے ہیں تو  کیا ہمارے  لیے چائنیزکا بنایا ہوا کھانا ٹھیک ہے؟

2۔   کیا ہمارے لیے  چائنیز  کھانا جائز ہے  جو  اپنے لیے  تیار کرتے ہیں ؟

جواب

1، 2۔صورتِ مسئولہ میں اگر اس بات کا یقین ہو کہ جو کھانا  پکایاگیا ہے اگر اس میں حرام یا ناپاک چیز نہیں ہے، اور برتن بھی پاک ہے تو وہ کھانا کھانے کی گنجائش ہے،اور اگر اس میں ناپاک یاحرام چیز موجود ہے تو اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لايجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً."

(كتاب الكراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:347، ط:رشيدية)

فیه ایضاً:

"والأكل مع الكفار لو ابتلى به المسلم لابأس لو مرة أو مرتين، أما الدوام عليه يكره."

(كتاب الكراهية، الفصل الثالث فيما يتعلق بالمناهي، ج:6، ص:359، ط:رشيديه)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى-: يكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها جاز إذا لم يعلم بنجاسة الأواني وإذا علم حرم ذلك عليه قبل الغسل."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ج:8، ص:232، ط:دار الكتاب الإسلامي)

"المحيط البرهاني"میں ہے:

"أما الطاهر الذي لا كراهة فيه سؤر الآدمي وسؤر ما يؤكل لحمه سوى الدجاجة المخلاة، أما سؤر الآدمي فلما روي أن رسول الله عليه السلام «أتي بعسل من لبن فشرب بعض وناول الباقي أعرابيا كان على يمينه فشربه ثم ناول أبا بكر فشربه ، ولأن عين الآدمي طاهرة لا كراهة فيه إلا أنه لا يؤكل لكرامته ولعابه متولد من عينه، فإذا كان عينه طاهر من غير كراهة كان سؤره طاهرا من غير كراهة أيضا، ويستوي فيه المسلم والكافر عندنا. وقال الشافعي: سؤر الكافر نجس؛ لأن عين الكافر نجس، قال الله تعالى:{إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ}(التوبة: 28) فإذا كان عينه نجسا كان لعابه نجسا فيكون سؤره نجسا. وإنا نقول: عين الكافر ليس بنجس، ألا ترى أن وفد بني ثقيف أنزلوا في مسجد رسول الله عليه السلام وكانوا مشركين، ولو كان عين الكافر نجسا لما أنزلوا في المسجد. والآية محمولة على نجاسة اعتقادهم، لا على نجاسة أعضائهم، ونجاسة الاعتقاد لا تؤثر في نجاسة الأعضاء."

(‌‌كتاب الطهارات، ‌‌الفصل الرابع في المياه، ج:1، ص:124، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح" میں ہے:

"الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب ... وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس."

(‌‌‌‌كتاب الطهارة، باب في المياه، فصل: في بيان أحكام السؤر، ص:18، ط:المكتبة العصرية)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ہے:

"کوئی شخص اپنی ذات اور پیشہ کے اعتبار سے چمار ہو یا کچھ اور ، جب وہ نجاست میں سے ملوث نہیں، بدن اور کپڑے صاف ہیں، ہاتھ دھو کر کھانا پکاتا ہے یا کھاتا ہے اور اس کھانے میں کوئی حرام چیز نہیں ہے، تو اس کو نجس نہیں کہا جائے گا ،وہ اگر برتن استعمال کرتا ہے پھر آپ دھو لیتے ہیں، یا وہی دھو کر دے دیتا سے تو وہ برتن بھی قابلِ استعمال ہے ،مجبوراً کبھی موقع ہو جائے ،تو کھانا بھی ساتھ کھا سکتے ہیں، بس اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کوئی نجس و حرام چیز کھانے پینے کی نوبت نہ آئے ، علیحدہ رہنے کے لیے آپ کی طبیعت خود ہی فکرمند ہے،اللہ تبارک و تعالی آپ کی حفاظت فرمائے ۔آمین"

(کتاب الحظر والإباحة، باب الأكل والشرب، الفصل الأول، كفار كے ساتھ كھانے كا بيان، ج:24، ص:155، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں