بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چینی کمپنی کو گدھے فروخت کرنا اور اس کمپنی میں کام کرنا


سوال

ہمارے گوادر میں چائنیز کمپنی ہے، جن کے مالک بھی چینی باشندے ہیں، وہ یہاں مقامی لوگوں سے گدھے خریدتے ہیں اور اپنی کمپنی میں اس کو کسی بھی طریقے سے ذبح کر کے ان کا گوشت باہر کے ممالک میں فروخت کرتے ہیں،اسی کام کی کمپنی ہے اور کوئی کام اس کانہیں ہے، خصوصاً چین میں، اس کمپنی میں مسلمان بھی کام کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ مسلمان ان کمپنی والوں کو گدھے فروخت کر سکتے ہیں؟

جو مسلمان اس کمپنی میں کام کر رہے ہیں ان کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟

فروخت کیے گئے گدھے مسلمان ذبح کر سکتے ہیں؟ مسلمان خود گدھوں کو گوشت کے لیے کس طریقے پر ذبح کریں؟ کرنٹ دے کر یا سر پر ہتھوڑا مار کر یا کوئی اور طریقہ جو بہتر ہے؟

جواب

مسلمان کے لیے غیر مسلم کو گدھا فروخت کرنا جائز ہے،لہذامسلمان مذکورہ کمپنی والوں کو گدھے فروخت کر سکتے ہیں۔البتہ مسلمانوں  کے لیےمذکورہ کمپنی میں(جس میں گدھوں کوذبح کرکے ان کاگوشت فروخت کیاجاتاہے) کام کرنا جائز نہیں، اس وجہ سے مذکورہ کمپنی  میں کام کرنے کے بعد جو تنخواہ ملے گی وہ حلال نہیں ہوگی۔نیزفروخت کیے گئے گدھے  کو مسلمان  گوشت کھلانے کے لئے ذبح نہیں کر سکتے ،اورگوشت کھانے کے لیے  بھی مسلمان کو گدھا ذبح کرنے کی اجازت نہیں، خواہ کسی بھی طریقے سے ہو۔کیوں کہ گدھے کا گوشت حرام ہے اور حرام کھانااور کھلانا دونوں حرام ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع مجتبى، واعتمده المصنف وسيجيء في المتفرقات.

ونقل السائحاني عن الهندية: ويجوز بيع سائر الحيوانات سوى الخنزير وهو المختار اهـ وعليه مشى في الهداية وغيرها من باب المتفرقات."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد:5، صفحہ: 69، طبع: سعید)

فتاوی هنديه ميں هے:

"ولا بأس ببيع العصير ‌ممن ‌يتخذه ‌خمرا في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى."

(كتاب الاشربة، جلد:5، صفحه: 416، طبع: دار الفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلماً يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز لما ذكرنا."

(کتاب الإجارۃ، فصل فیمایجوز من الاجارۃ ومالایجوز، 482/7، ط: دارالکتب العلمیة)

الموسوعۃالفقهيۃالكويتيۃ میں ہے:

"اتفقوا على أنه لا يجوز للمسلم أن يؤجر نفسه للكافر لعمل لا يجوز له فعله كعصر الخمر ورعي الخنازير وما أشبه ذلك."

(حرف الخاء،خدمة الكافر للمسلم، 19 /45۔46، ط: دارالسلاسل۔بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على أي وجه، ولا يطعمها الكلاب والجوارح."

(الفتاوى الهنديه: 5/ 398 ط زكريا)

فتاوی شامی میں ہے:

 

"إذا تنجس الخبز أو الطعام لا يجوز أن يطعم الصغير، أو المعتوه، أو الحيوان الماكول اللحم. (الفتاوى الهنديه:5/ 398)،  لأن ما تنجس باختلاط النجاسة به والنجاسة مغلوبة لا يباح أكله ويباح الانتفاع به فيما وراء الأكل."

(الدر المحتار تحت صاحب قول الدر المختار فيطعم للكلاب فصل في البئر :1/ 376 ط زكريا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں