بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چمکادڑ کے حلال یا حرام ہونے کا حکم


سوال

چمکاڈر حلال ہے یا حرام ؟

جواب

چمکادڑ کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق فقہاء کرام کے دونوں طرح کے اقوال کتب میں موجود ہیں۔ البتہ راجح قول اس کے حرام ہونے کا ہے؛ کیوں کہ ضابطہ ہےکہ جب کسی چیز کے حلال اور حرام ہونے میں اختلاف ہو تو اس کی حرمت راجح ہوتی ہے۔ چناں چہ  قاضی خان وغیرہ نے یہی قول اختیارکیاہے۔اورحرمت کی وجہ یہ ہے کہ چمکادڑ "ذوناب" یعنی نوک دار دانت والا جانور ہے۔ (واضح رہے کہ چمکادڑ کے انسانوں اور دیگرجانوروں کی طرح دانت ہوتے ہیں۔) 

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 58):

’’وأما الخفاش: فقد ذكر في بعض المواضع أنه لا يؤكل؛ لأن له ناباً.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 195):

’’قال في النهاية: ذكر في بعض المواضع أن الخفاش يؤكل وذكر في بعضها أنه لا يؤكل لأن له نابًا.‘‘

الفتاوى الهندية (5/ 290):

’’وأما الخفاش فقد ذكر في بعض المواضع أنه يؤكل، وفي بعض المواضع أنه لا يؤكل؛ لأن له نابًا.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 306):

’’ وقيل الخفاش لأنه ذو ناب.

 (قوله: وقيل: الخفاش) أي كذلك لايحل فهو مبتدأ حذف خبره والقائل قاضي خان.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں