بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چلغوزہ چلغوزے کے بدلے بیچنا


سوال

چلغوزے کے بدلے چلغوزے کی بیع کا کیا حکم ہے؟

جواب

چلغوزہ وزن کے اعتبار سے سے بیچی جانے والی اشیاء میں سے ہے اور ایسی اشیاء کا حکم یہ ہے کہ جب ان کو ان کی جنس (یعنی چلغوزے ہی) کے بدلے میں بیچا جائے تو دونوں طرف  وزن میں بھی برابری ضروری ہے اور نقد (یعنی ہاتھ در ہاتھ) بیچنا بھی ضروری ہے، لہٰذا  کمی زیادتی کے ساتھ (یعنی کم چلغوزے کو زیادہ کے بدلے میں) بیچنا  یا ادھار بیچنا(یعنی  نقد چلغوزے کو ادھار چلغوزے کے بدلے میں بیچنا) حرام ہوگا اورسود کے زمرے میں آئے گا۔

في ملتقى الأبحر (1 / 119):

 "وعلته الْقدر وَالْجِنْس فَحرم بيع الكيلي والوزني بِجِنْسِهِ مُتَفَاضلا أَو نَسِيئَة، وَلَو غير مطعوم كالجص وَالْحَدِيد".

في مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2 / 84):

"(فَحَرُمَ) تَفْرِيعٌ عَلَى كَوْنِ الْعِلَّةِ الْقَدْرَ وَالْجِنْسَ (بَيْعُ الْكَيْلِيِّ وَالْوَزْنِيِّ بِجِنْسِهِ) كَبَيْعِ الْحِنْطَةِ بِالْحِنْطَةِ وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ مِثْلًا (مُتَفَاضِلًا) لِوُجُودِ الرِّبَا فِي ذَلِكَ (أَوْ نَسِيئَةً) أَيْ بِأَجَلٍ لِمَا فِي ذَلِكَ شُبْهَةُ الْفَضْلِ إذْ النَّقْدُ خَيْرٌ (وَلَوْ) وَصْلِيَّةً (غَيْرَ مَطْعُومٍ) .... (كَالْجَصِّ) مِنْ الْمَكِيلَاتِ (وَالْحَدِيدِ) مِنْ الْمَوْزُونَاتِ وَالطُّعْمُ غَيْرُ مُعْتَبَرٍ عِنْدَنَا".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144112201352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں