بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چیونٹیاں زیادہ ہوں تو ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟


سوال

ہمارے گھر میں چیونٹیاں بہت زیادہ مقدار میں جمع ہو چکی ہیں اور دروازے کے قریب لشکر کی صورت میں گزر رہی ہو تی ہیں جو پاوں کے نیچے کچلنے کا اندیشہ ہوتا ہےاور  جہاں ہم وضو کرتے ہیں عین نلکے کے پاس ان چیونٹیوں کا جم غفیر رہتا ہے، ہمیں فتویٰ در کار ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان چیونٹیوں کے ساتھ کیا برتاو کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چیونٹیاں اگر بہت زیادہ ہیں جن کی کثرت سے پریشانی ہورہی ہے تو اگر ان کو مارے بغیر ان کا ختم کرنا ممکن ہو تو بغیر مارے ان کو ہٹانے کی تدبیر کی جائے،لیکن اگر وہ پھر بھی ختم نہ ہوتی ہوں تو ان کو ختم کرنے کے لیے دوائی کا استعمال  کرنا  جائز ہے،لیکن ان کو  جلانا مکروہ ہے۔

اعمال قرآن میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چیونٹیوں کو بھگانے کے لیے یہ عمل کیا جائے کہ قرآنی آیت("حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ.")لکھ ان کے سوراخ کے پاس رکھ دیا جائے تو ان شاء اللہ تمام چیونٹیاں اپنے سوراخ میں چلی جائیں گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قتل النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة."

(كتاب الكراهية،ج: 5، ص: 361، ط: رشيدية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وكره ‌قتل ‌النمل والنحل، لما روى ابن عباس رضي الله عنهما قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل أربع من الدواب: النملة، والنحلة، والهدهد، والصرد ۔واستثنى الفقهاء النمل في حالة الأذية، فإنه حينئذ يجوز قتله."

(حرف الحاء، حشرات، مايكره قتله من الحشرات، ج: 17، :ص 283، ط: دار السلاسل)

اعمال قرآنی میں ہے:

"حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ."

 خاصیت: اگر چیونٹیوں کي کثرت ہو تو اس آیت کو لکھ کر ان کے سوراخ کے پاس رکھ دے،انشاء اللہ سب چیونٹیاں اپنے سوراخ میں داخل ہوجائیں گی۔

(اعمال قرآنی ، حصہ اول، ص:27 ،ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144404101122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں