بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس دوپٹے پر چڑیا کی تصویر بنی ہوئی ہے اس دوپٹے کو اوڑھ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

دوپٹے پر چڑیا بنی ہوئی ہو تو کیا نماز ہو جائے گی؟ 

جواب

ملحوظ رہے اگر کسی کپڑے پر جان دار کی تصویر ہو اور  دیکھنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ فلاں جانور یا پرندے کی تصویر ہے، تو ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اور نماز کے علاوہ بھی ایسے  کپڑے زیبِ تن کرنا  جائز نہیں ہے۔
بصورتِ مسئولہ اگر دوپٹے پر چڑیا  کی تصویر بڑی ہے، اور  دیکھنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ چڑیا ہے، تو ایسے  دوپٹے کو اوڑھ کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر وہ تصویر مٹادی جائے یا چھپالی جائے یا اس کا چہرہ مکمل کاٹ دیا جائے یا تصویر بہت چھوٹی ہو کہ سمجھ نہ آتی ہو، تو پھر نماز میں کراہت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(ولبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح،

(قوله: و لبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حرامًا لا مكروهًا إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروهًا.

قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون، بدليل قوله في الخلاصة بعد ما مر: أما إذا كان في يده وهو يصلي لايكره و كلام النووي في فعل التصوير، و لايلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ و لو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لاتحرم، بل و لاتكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. وعلة كراهة الصلاة بها التشبه وهي مفقودة فيما ذكر كما يأتي، فاغتنم هذا التحرير."

(کتاب الصلوۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:647، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں