بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارہ صحیحہ کا حکم


سوال

میں ایک نجی ادارے میں 25 سال سے الیکٹریکل ڈپارٹمنٹ کا انچارج ہوں، اب میں لیزر کاٹنے والی مشینوں کی الیکٹریکل مرمت کی خدمات پر اپنا کام شروع کرنا چاہتا ہوں، میرا ایک عزیز ہے جس کے پاس الیکٹریکل میں 3 سالہ ڈپلومہ ہے، اور تقریبا 7 سال کا تجربہ ہے،ابتدائی طور پر کسی مناسب جگہ پر دکان کرایہ پر لے کر ورکشاپ  بنانے کا ارادہ ہے، میں دکان کے سیٹ اپ ، ضروری اوزار وغیرہ کے اخراجات برداشت کروں گا، جب کام شروع ہوگا، تو شروع میں میں بھی  ساتھ رہوں گا، مگر جب کام چل پڑے  گا ،اور میرا عزیز بھی کام کو سمجھ جائے گا، تو آہستہ آہستہ میں خود کو پیچھےکر لوں گا، میرا عزیزہی سارے کام کو دیکھاکرے گا،جب بھی کوئی ایسا کام پھنس جائے  جو میرےعزیز کو سمجھ  نہ آئے، تب  میں اس کی کیا مدد کروں گا؟ اس سلسلے میں آپ سے  رہنمائی درکار ہے کہ مضاربت کی اس صورت کی کیاشرعی حدود ہیں؟اس میں کمائی کا لین دین ہم کس سے متعین کرے ؟ اس معاملے کو اگر کبھی فسخ کرناہو تو اس کی کیا حدود وقیودہوں گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل دکان کرائے پرلے کرورکشاپ بنائے گا،دکان کاسیٹ اپ،ضروری اوزار وغیرہ کے اخراجات برداشت کرے اورشروع میں خود بھی کام کرے،تویہ معاملہ شرعی طورپر مضاربت نہیں بن سکتا،بلکہ اجارہ (مزدوری پرطے کرنا)ہے، لہذاسائل پرلازم ہے کہ وہ اپنے عزیز کے لیے ماہانہ ایک متعین رقم تنخواہ طے کرے،اگر سائل اپنے عزیز کواس معاملہ سے دست بردار کرناچاہے تومہینہ مکمل ہونے سے پہلے مطلع کردے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"وشرطها: كون الاجرة والمنفعة معلومتين لان جهالتهما تفضي إلى المنازعة........تفسد الاجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد .....كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ص:569/ 579، ط:دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع  ميں ہے:

"وأما معنى الإجارة فالإجارة بيع المنفعة لغة ولهذا سماها أهل المدينة بيعا وأرادوا به بيع المنفعة ولهذا سمي البدل في هذا العقد أجرة، وسمى الله بدل الرضاع أجرا بقوله {فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن} والأجرة بدل المنفعة لغة ولهذا سمي المهر في باب النكاح أجرا بقوله عز وجل {فانكحوهن بإذن أهلهن وآتوهن أجورهن} أي مهورهن لأن المهر بدل منفعة البضع، وسواء أضيف إلى الدور، والمنازل، والبيوت والحوانيت، والحمامات، والفساطيط، وعبيد الخدمة، والدواب، والثياب، والحلي والأواني، والظروف، ونحو ذلك أو إلى الصناع من القصار، والخياط، والصباغ والصائغ، والنجار والبناء ونحوهم".

(كتاب الإجارة ، فصل في ركن الإجارة ومعناها،ج :4 ص:174 ، ط :العلمية)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:

"وقال: إن وقعت الإجارة على المدة كما في إجارة الأرض والدواب والعبد، أو على قطع المسافة كاستئجار الحمال والدابة، فإنه يجب إيفاء الأجر بحصة ما استوفى إذا كان لما استوفى حصة معلومة من الأجر ففي الدار يوفي أجر يوم فيوم، وفي قطع المسافة إذا سار من حلة من حلة يجب عليه حصة ما استوفى."

(کتاب الإجارات، الفصل الثانی فی بیان أنه متی یجب الأجر،ج،7،ص،399، ط:دار الکتب العلمیة ۔بیروت)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144410101611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں