بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیمیکل ٹیسٹ پاس کرانے میں ٹیکنیشن کو رشوت دینا


سوال

زید نے ایک ٖٹیکسٹائل کمپنی کو اپنا کمیکل فروخت کرتا ہے جب زید ٹیسٹنگ کے لیے کمیکل کا سیمپل دیتا ہے تو خریدار کمپنی کا ٹیکنیشن جو کہ خریدار کمپنی کا ملازم ہوتا ہے وہ مشین میں کیمیکل چلا کر ٹیسٹ کرتا ہے، اگر کیمیکل کا رزلٹ صحیح آتا ہے تو ٹیکنیشن اپنی کمپنی کو یہ رزلٹ بتادیتا ہے اور کمپنی اس کے صحیح رزلٹ بتانے پر زید سے کیمیکل خریدنا شروع کردیتی ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ رزلٹ صحیح آنے کے باوجود ٹیکنیشن اس وقت تک اپنی کمپنی کو رزلٹ صحیح نہیں بتاتا جب تک زید کی طرف سے اسے کوئی کمیشن نہ دیا جائے اور اب یہ کافی عام ہوچکا ہے کہ ٹیکنییشن مال بیچنے والی کمپنیوں سے کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں، اور جب تک ان کو کمیشن نہیں ملتا وہ اپنی کمپنی کی مینجمینٹ کو صحیح رزلٹ نہیں بتاتے اور اس طرح کیمیکل بیچنے والی کمپنیوں کو کمیشن دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں زید کے لیے یہ کمیشن دینے کا کیا حکم ہے؟ جب کہ یہ کمیشن نامی رشوت  زید ایک نفع حاصل کرنے کے لیے دے رہا ہو؟میں نے سنا ہے رشوت دفع مضرت کے لیے یا ثابت شدہ حق وصول کرنے کے لیے مجبوراً دینی پڑے تو گنجائش ہوتی ہے جب کہ یہاں ابھی کمپنی کے ساتھ معاملہ ہوا ہی نہیں تو یہاں کوئی حق اب تک ثابت نہیں ہوا البتہ رشوت دے کر معاملہ ہوجانے پر حق ثابت ہو جائے گا، لہذا معاملہ کرنے کے لیے جو کہ زید کے حق میں محض ایک نفع ہے اس کے حصول کے لیے رشوت دینے کی کوئی گنجائش ہے؟ 

جواب

رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا بھی واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو رشوت دینے گنجائش ہے، امید ہے کہ آخرت میں اسے پکڑ نہیں ہوگی، ورنہ جہاں ابھی تک حق ثابت نہ ہوا تو ایسی جگہ رشوت دینا جائز نہیں ہوگا، رشوت دینے کا گناہ ملے گا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں جب ابھی تک کمپنی کے ساتھ کوئی معاملہ ہی نہیں ہوا تو ایسی صورت میں صحیح کیمیکل کی درست رپورٹ کمپنی مالکان (مینجمنٹ) کو دینے کے لیے ٹیکنیشن کو کمیشن دیتا شرعاً صریح رشوت ہے جو کہ جائز نہیں۔ 

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة واولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".  

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ص:295، ج:7، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں