بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چہرہ پُرکشش بنانے کے لیے jawline ورزش کرنا


سوال

 آج کل لوگ آنکھوں کو بڑادکھانے کے لیے اورjawline وغیرہ کے لیے،یا جسم کے مختلف اعضاء کو فِٹ رکھنے کے لیےمخصوص قسم کی جسمانی ورزش  کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا تغییر لخلق اللہ میں داخل ہے ؟ کیایہ مباح ہے؟

وضاحت:  چہرے کو پُر کشش بنانے کےلیے  jawline (نچلے جبڑے) کو مخصوص ساخت پر ڈھالنے کا عمل،جس  میں ایک خاص طریقے پر جبڑے کی وزرش کی جاتی ہے،تاکہ چہرے پر موجود چربی کم ہوجاۓاوراس کی ساخت بہتر نظر آئے۔

جواب

واضح رہے کہ جسمانی اعضاء کو  چاق و چوبند رکھنے کی غرض سے کوئی بھی مفیدجسمانی ورزش کرنا مباح ہے  اور ضرورت کی بنا پر یا اچھی نیت سے ہو تو اسلام کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے،(بشرطیکہ اس میں ایسا غلو  اختیار نہ کیا جاۓ، جس کی وجہ سے فرائض اور دیگر بنیادی شرعی تعلیمات سے اعراض لازم لاۓ)، چناں چہ اگر چہرے کی چربی کم کرنے کے لیے یابدنما نظر آنے والےچہرےکی اصلاح اور اس کے خوشنما دِکھنے کے لیےjawlineیعنی نچلے جبڑے کی  ورزش  کی جاۓ تو درست ہے۔

لیکن  آج کل عام طور پر jawlineورزش صرف بطورِ فیشن  کی جاتی ہے،چاہے چہرے کےخدو خال   صحیح کیوں نہ ہوں،اسی طرح کسی قسم کاعیب نہ ہونے کے باوجود،بلا ضرورت صرف زینت کے حصول کی خاطرآنکھیں بڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جو کہ لغو فعل ہے، اس لیے اگر ضرورت نہ ہو  تو  اس عمل سے اجتناب ہی بہتر ہے۔

إمداد الأحکام میں اس حوالے سے ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:

"سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ آج کل جو نئے نئے اقسام کی ورزش اس ملک میں رائج ہوگئیں، ان کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟آیا یہ کہ چونکہ یہ ورزشیں صحت و قوت ِبدنی حاصل کرنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے، جن کا مرغوب فیہ و محبوب ہونا آیت ِکریمہ "بسطة في العلم والجسم"،نیز حدیث شریف "المؤمن القوي خير من المؤمن الضعيف وفي كل خير"سے معلوم ہوتا ہے،تو بقاعدۂ شرعیہ" مقدمات الشيء في حكم ملحقاتها"، کیا یہ ورزشیں بھی جائز بلکہ محبوب و مرغوب فیہ ہو جائیں گی یا نہیں؟ذیل میں ان ورزشوں کی مختلف اقسام لکھی جاتی ہیں:

۔۔۔(ج)ایک ورزش ڈول ( قواعد) جس میں بدن مختلف طرف سے ہلایا جاتا ہے،یہ عموماً ہر سرکاری اسکول میں ہر لڑکے سے جبراًکرایا جاتا ہے۔

(د)بعض ورزشیں سائنس اور طب کے اصولوں کے موافق بنا کر بعض انگریزوں(مثلاً مسٹر سٹنڈون مٹکفنڈن وغیرہ)نےان ورزشوں کے نمونے اپنی کتاب میں درج کیے ہیں اور فوٹو بھی دیے ہیں اور یہ سمجھایا کہ اس قسم کی ورزش اس خاص مرض کا علاج ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو اگر کوئی شخص مسلمان ان صورتوں کو دیکھ کر یہ ورزشیں کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اوراگر فوٹو نہ دیکھے بلکہ کسی دوسرے آدمی سے سیکھ کر یہ ورزشیں کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔۔۔

الجواب:ہر ورزش جس سے بدن کی قوت و صحت مطلوب ہو، فی نفسہ جائز اور مباح ہے ،اگر اس میں حرمت بعد کراہت آئے گی تو کسی عارض کی وجہ سے آئے گی، مثلاً کسی کی نیت کفار کے ساتھ تشبہ کی ہو یا ورزش کے وقت لباس کفار کا پہنا جائے یا اس کا وقت ایسا مقرر کیا جائے جس سے نماز ضائع ہو یا اس میں خلل پڑے ۔۔۔یاکسی ورزش میں کفار یا فساق کا اختلاط ناگزیر ہو،یا کسی ورزش کا اثر طبائع  پر یہ پیدا ہوتا ہو کہ اس کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں کفار کے ساتھ تشبہ کرنامعیوب نہ رہے بلکہ تشبہ کی رغبت پیدا ہو یا اس کے مثل اور کوئی عارض شرعی ہو۔ اس تفصیل سے تقریباً تمام سوالات کا جواب ہو گیا۔

اب خلاصہ کے طور پر بطور فیصلہ کے ہم کہتے ہیں کہ۔۔۔ جو انگریزی ورزشیں تنہا کی جاسکتی ہیں  ان میں کچھ حرج نہیں جیسے بدن کو خاص طور سے حرکت دینا یا ڈمبل وغیرہ ہلانا، بشرطیکہ ان ورزشوں کو تنہائی میں کیا جائے اور جس کتاب میں ورزشوں کے اصول لکھے ہیں، ان کو دیکھنا،پاس رکھنا بھی جائز ہے، مگر تصویروں کا چہرہ پھاڑ دینا یا سیاہی وغیرہ سے چھپا دینا لازم ہے ۔ واللہ أعلم۔"

(کتاب اللباس والزینۃ، باب اللعب والغناء والتصاویر، زیر ِ عنوان:ورزش کی مختلف اقسام اور ان کا حکم،ج:4،  ص:378،379، ط:مکتبۃ دارالعلوم کراچی)

تفسیر کبیر میں ہے:

"ثم قال تعالى: ‌قل ‌من ‌حرم زينة الله التي أخرج لعباده والطيبات من الرزق وفيه مسائل:

المسألة الأولى: ... وفي الآية قولان: القول الأول: إن المراد من الزينة في هذه الآية اللباس الذي تستر به العورة وهو قول ابن عباس رضي الله عنهما وكثير من المفسرين.

والقول الثاني: إنه يتناول جميع أنواع الزينة فيدخل تحت الزينة جميع أنواع التزيين ويدخل تحتها تنظيف البدن من جميع الوجوه."

(الأعراف، ج:14، ص:230، ط:دار إحیاء التراث العربي)

زاد المعاد میں ہے:

"ووقت الرياضة بعد انحدار الغذاء وكمال الهضم. والرياضة المعتدلة هي التي تحمر فيها البشرة وتربو، ويتندى بها البدن. فأما التي يلزمها سيلان العرق فمفرطة. وأي عضو كثرت رياضته قوي، وخصوصا على نوع تلك الرياضة؛ بل كل قوة فهذا شأنها. فإن من استكثر من الحفظ قويت حافظته، ومن استكثر من الفكر قويت قوته المفكرة، ولكل عضو رياضة تخصه. فللصدر القراءة، فليبتدأ فيها من الخفية إلى الجهر بتدريج. ورياضة السمع بسمع الأصوات والكلام بالتدريج، فينتقل من الأخف إلى الأثقل. وكذلك رياضة البصر. وكذلك رياضة اللسان في الكلام. وكذلك رياضة المشي بالتدريج شيئا فشيئا. وأما ركوب الخيل ورمي النشاب والصراع والمسابقة على الأقدام، فرياضة للبدن كله. وهي قالعة لأمراض مزمنة كالجذام والاستسقاء والقولنج."

(الطب النبوي، فصل في هديه في الرياضة، ج:4، ص:354،355، ط:دار إبن حزم)

شخصیۃ المسلم کما یصوغھا الإسلام فی الکتاب والسنۃ لمحمد علی الھاشمی میں ہے:

"إن المسلم الحق لا يهمل نفسه، ولا ينسى ذاته... فالمسلم الحق الواعي الحصيف هو الذي يوازن بين جسمه وعقله وروحه، فيعطي لكل حقه، ولا يغالي في جانب من هذه الجوانب على حساب جانب، مستهديا بهدي رسول الله صلى الله عليه وسلم المتوازن الحكيم...

"يحرص المسلم كل الحرص على أن يكون صحيح الجسم، قوي البنية... والمسلم الواعي يعلم أن المؤمن القوي أحب إلى الله من المؤمن الضعيف، كما قرر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومن هنا هو يعمل على تقوية جسمه باتباع نظام صحي في حياته.

‌‌يزاول الرياضة البدنية:

إن المسلم الحق، وإن كان في الغالب صحيح الجسم قوي البدن، لبعده عن المنهكات والمهلكات من المأكولات والمشروبات الضارة الخبيثة المحرمة، ولتجنبه العادات السيئة المجهدة المنهكة كالسهر والآنهماك بما يوهي العزيمة ويحط الجسم، ليعمل جاهدا على كسب المزيد من القوة لجسمه، فلا يكتفي بالأسلوب الحياتي الصحي الذي رسمه لنفسه، بل يزاول الرياضة المدروسة التي تناسب جسمه وعمره ووضعه الاجتماعي، وتهب جسمه قوة ونشاطا وحيوية ومناعة من العلل والأمراض، ويضع لذلك مواعيد لا تخلف، لتؤتي هذه التمارين أكلها، وتعطي نتاجها الطيب لجسمه، كل ذلك باعتدال وتوازن ونظام اتسم به المسلم الحق الواعي في كل زمان ومكان...

والمسلم يفعل هذا كله وفق نظرية الإسلام الوسط في الأمور كلهاوهي نظرية الاعتدال التي لا إفراط فيها ولا تفريط... وما دام التجمل لا يبلغ حد التأنق المفرط، فهو من الزينة الطيبة التي أباحها الله لعباده وحض عليها:

{يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ * قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} (الأعراف:2)."

(المسلم مع نفسه، ص:33- 42، ط: دارالبشائر الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں