بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھ ماہ کے حمل کو بیماری کے اندیشہ کی وجہ سے گرانے کا حکم


سوال

 میری بیٹی کی ڈھائی سال پہلے شادی ہوئی  تھی ، آج وہ چھ ماہ کی حاملہ ہے ڈاکٹر نے الٹراساؤنڈ رپورٹ دیکھ کر کہا ہے  کہ  اس کو ضائع کردیں کیونکہ بچے کا مغز بن نہیں  رہا ہے،  مغز میں پانی بھراہوا  ہے، اور مزید کوئی چانس نہیں ہے کہ مغز بنے اور ماں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے،  بچے میں سانس تو ہے مگر حرکت نہیں  ہے (monument) اب ہم کیا کریں؟

جواب

صورت مسئولہ میں حمل کی عمر  چونکہ چھ ماہ ہوچکی ہے، لہذا اب اسقاط حمل جائز نہیں ہے، شدید مجبوری  کی صورت میں حمل کے چار ماہ سے پہلے اسے ساقط کرنا جائز ہوتا ہے،  کیوں کہ حمل میں چار ماہ کے بعد جان پڑ جاتی ہے، جس کے بعد اسے ختم کرنا قتلِ نفس کے برابر ہوتا ہے، یعنی چار ماہ  کے حمل کو گرانا زندہ بچے   کو   قتل کرنا  ہے، جوکہ شرعا جائز نہیں۔

پس اللہ سے زچہ و بچہ کی صحتیابی کی دعا کرتے رہیں، اور صدقہ و خیرات بھی کرتے رہیں،   ان شاء اللہ اللہ خیر کرے گا، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان.

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي.

وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفيه العزل وإسقاط الولد، ٥ / ٣٥٦، ط: دارالفكر)

النهر الفائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولم يكن ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في (الفتح)، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج."

( كتاب النكاح، باب نكاح الرقيق، ٢ / ٢٦٧، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں