بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھینکنے والے کا الحمد للہ کہنے اور اس کے جواب دینے کا حکم


سوال

 چھینک آنے پر” الحمدللہ“ کہنا کیا ہے؟ سنت ہے ،واجب ہے یا فرض ہے؟اور چھینکنے والے کا ”الحمدللہ“ سن کر ”یرحمک اللہ“ کہنا کیا ہے؟ ایک صاحب نے کہا ہے کہ ”الحمدللہ“ کا جواب دینا فرض ہے۔

جواب

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر  حقوق میں سے ایک حق  چھینکے والے کے ”الحمد للہ“ کہنے پر ”یرحمک اللہ“ کا جواب دینا بھی ہے،نیز  چھینکنے پر ”الحمد للہ“ کہنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے، البتہ کسی مجمع میں کوئی شخص چھینکنے کے بعد ”الحمد للہ“ کہے تو  اس مجمع میں سے کوئی ایک بھی اس کے جواب میں ”یرحمک اللہ “ کہہ دے  تو سب سے واجب ادا ہوجائے گا، اس لیے کہ جواب دینا وجوبِ کفایہ ہے، اسے کبھی فرض کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے،لیکن اگر چھینکنے والے ”الحمد للہ“ نہ کہے تو اس کے جواب میں ”یرحمک اللہ“ کہنا ضروری نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث شریف میں ہے:

" عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس."

( کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز:ج:1، ص: 144، ط: دار الفکر)

ترجمہ : ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله إذا عطس أحدكم فليقل الحمد لله عده الشارع نعمة فيسن عقيبه الحمد لله...... وقال النووي اتفقوا على أنه يستحب للعاطس أن يقول عقيب عطاسه ”الحمد لله“، فلو زاد ”رب العالمين“ كان أحسن، فلو قال ”الحمد لله على كل حال“ كان أفضل."

(باب العطاس والتثاؤب: ج:14، ص:5، ط: المشکاۃ الإسلامیة)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"تشميت العاطس واجب إن حمد العاطس فيشمته إلى ثلاث مرات وبعد ذلك هو مخير، كذا في السراجية..... إذا عطس الرجل خارج الصلاة فينبغي أن يحمد الله تعالى فيقول: الحمد لله رب العالمين، أو يقول: الحمد لله على كل حال، ولا يقول غير ذلك."

(کتاب الکراهیة، الباب السابع في السلام وتشمیت العاطس: ج: 5، ص:326، ط: حقانیة)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

" وهذا التشميت سنة عند الشافعية .وفي قول للحنابلة وعند الحنفية هو واجب .وقال المالكية ، وهو المذهب عند الحنابلة بوجوبه على الكفاية."

(تشمیت: ج:12، ص:27، ط: دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں