میری بیوی کے پاس تقریبًا چھ تولہ سونا ہے اور 35ہزار نقد روپے ہے، اس پر سال گزرا ہے، کیا ہم پر زکات فرض ہے، اور زکات بیوی ادا کرے گی یا میں ادا کروں؟
بصورتِ مسئولہ مذکورہ خاتون کے پاس جب اس کی ملکیتی چھ تولہ سونے کے ساتھ کچھ نقد رقم (بنیادی ضرورت سے زائد) بھی ہے، اور ان دونوں چیزوں کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ بنتی ہے، تو مذکورہ خاتون پر سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا لازم ہے، بیوی کے مال کی وجہ سے شوہر پر زکات واجب نہیں ہوگی، البتہ بطورِ وکیل شوہر اپنی بیوی کی طرف سے زکات ادا کرسکتا ہے، اس صورت میں زکات نکالنے سے پہلے بیوی کے علم میں لانا ضروری ہوگا کہ اس کی طرف سے زکات نکال رہاہوں، کیوں کہ زکات کی ادائیگی کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے۔
زکات ادا کرنےکا طریقہ یہ ہے کہ مجموعی قیمت کو چالیس سے تقسیم کیاجائے تو حاصل جواب واجب الادا زکات کی رقم ہوگی۔
فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے:
"( الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابًا ملكًا تامًّا وحال عليه الحول".
(كتاب الزكاة، ج:3، ص:460، ط:دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209200090
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن