زیدکےچندبیٹےہیں، کچھ شادی شدہ ہیں، اورکچھ غیرشادی شدہ ہیں، شادی شدہ بیٹوں میں ایک بیٹےکاانتقال ہواجس کےورثاء میں چندبیٹےہیں، پھرزیدکےجوبیٹےغیرشادی شدہ تھےان کی بھی زیدنےشادی کروادی، اب زیدکےجن بیٹوں کی شادی بعدمیں ہوئی ہے وہ اپنےمرحوم بھائی کےبیٹوں یعنی اپنےبھتیجوں سےیہ کہتےہیں کہ ہماری شادی پرجواخراجات آئےہیں تم بھی اس میں ایک حصہ برداشت کروگے، جب کہ بھتیجوں کاکہناہےکہ آپ کی شادی کےاخراجات ہمارےدادانےبرداشت کیے ہیں، لہذاہم برداشت نہیں کریں گے۔
پوچھنایہ ہےکہ چچاؤں کااپنےبھتیجوں سےیہ مطالبہ کرناکہ تم ہماری شادی کےاخراجات برداشت کروگےکیایہ مطالبہ درست ہے؟
چچاؤں کااپنےبھتیجوں سےیہ مطالبہ کرناکہ "تم ہماری شادی کےکل اخراجات یااس کاکچھ حصہ برداشت کروگے"تو ایسا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں، کیوں کہ چچاؤں کااپنےبھتیجوں پرشرعاًایساکوئی حق نہیں، یہ باپ کےذمہ داریوں میں سےہےکہ اگربیٹافقیرہےاورباپ صاحبِ استطاعت ہےتوباپ ان کی شادی کاانتظام کرے، البتہ مذکورہ صورت میں اگربھتیجےصاحبِ استطاعت ہیں، اوراپنی طرف سےحسبِ توفیق رقم وغیرہ خرچ کرکےاپنےچچاؤں کے شادی کے اخراجات میں تعاون کریں تویہ ان کی طرف تبرع واحسان ہوگا جوباعثِ اجروثواب ہے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد) أي: ذكرا أو أنثى (فليحسن) بالتخفيف والتشديد (اسمه وأدبه) أي: معرفة أدبه الشرعي (وإذا بلغ) وفي نسخة صحيحة بالفاء (فليزوجه) وفي معناه التسري (إن بلغ) أي: وهو فقير (ولم يزوجه) أي: الأب وهو قادر (فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد."
(کتاب النکاح، باب الولي في النكاح واستئذان المرأة، 2064/5، ط:دار الفکر)
تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره."
(كتاب المداينات، 226/2، ط:دار المعرفة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602101753
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن