بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاول کی ذخیرہ اندوزی کا حکم


سوال

اس وقت کے مروجہ نظام میں چاول کی فصل جب تیار ہو کے منڈی میں پہنچتی ہے، اُس وقت فصل کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اُس کو آئندہ کے  لیے ذخیرہ کرناہی اس کا حل ہے،  اب اگر کوئی بھی شخص جو کہ خود  کاشتکار نہیں ہے،  زمین دارسے یا منڈی سے چاول یا ایسی کوئی اور جنس لے کر ذخیرہ کر لے،تاکہ جب ریٹ بڑھے تو یہ ذخیرہ اندوزی منافع کا سبب بنے، تو یہ مناسب ہے یا نہیں؟اگر جائز نہیں ہے تو پھر آخر یہ جنس کون  سنبھالے گا اور کہاں سنبھالی جائے گی؟

جواب

از رُوئے شرع ان   چیزوں میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے جن میں درج ذیل صفات پائی جائیں:

(1)  وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور  کی غذا  (طعام ) کے طور پر استعمال ہوتی ہو، یعنی صرف کھانے پینے کی چیز نہ ہو، بلکہ بطورِ طعام استعمال ہوتی ہو۔ 

(2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن  کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔

(3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ 

(4) ذخیرہ اندوزی کرنے والا شخص اس غذا کی قیمت اتنی بڑھاکر بیچے کہ عوام کو اس سے ضرر لاحق ہو۔

لہذا اگر کسی چیز کی عام لوگوں کو ضرورت ہو اور اسے ذخیرہ کرنے کے نتیجے میں  وہ چیز آسانی سے نہ ملے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو یا وہ اتنی مہنگی ہوجائے کہ عام لوگوں کے لیے عرفاً ضرر (نقصان) کا باعث ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں، ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

بصورتِ مسئولہ اگر  کوئی شخص  ذخیرہ اندوزی  یا عام لوگوں کو ضرر پہنچانے کی نیت کے بغیر  چاول یا غلہ وغیرہ خرید کر رکھ لیتا ہے اور مارکیٹ میں چاول یا غلہ مناسب قیمت پر مل رہا ہے تو یہ ممنوع ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر کوئی بڑا شہر ہے کہ جس میں کوئی شخص چاول یا غلہ وغیرہ لے کر محفوظ  کرلیتا ہے اور اس کے غلہ ذخیرہ کرنے سے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچتا تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ 

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره

(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يومًا لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس» وفي رواية «فقد برئ من الله وبرئ الله منه» قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا» الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس وقال في الفصفصة بالكسر هو نبات فارسيته إسفست تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيرا هداية ".

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل في البيع، ج:6، ص:398، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں