بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث چاول کھاؤ کک اس میں شفا اوربرکت ہے اور حدیث جس نےاپنے گھرمیں نمازوتراداکی تو اس کے اہل ،مال،تجارت اورہرشے میں برکت ڈال دی جائے گی کی تحقیق


سوال

 دو احادیث کامستندحوالہ درکارہے :

(1) نبی کریم ﷺنے فرمایا: چاول کھاؤ کہ  اس میں شفا اوربرکت ہے ۔

(2)   جس نےاپنے گھرمیں نمازوتراداکی تو اس کے اہل ،مال،تجارت اورہرشے میں برکت ڈال دی جائے گی ۔  

کیایہ احادیث مستند ہیں،یاضعیف ؟ ان کی مکمل معلومات درکارہے۔

جواب

(1)پہلی روایت کو  علامہ جمال الدین محمد بن عبد الرحمن بن عمر الحُبَیشی رحمہ اللہ (المتوفي: 782ھ)   نے بغیر کسی سند کےان الفاظ میں  نقل فرمایا ہے :  

"كلوا الأرز؛ فإن فيه بركةً وشفاءً".

يعنی چاول کھاؤ کہ اس میں برکت اور شفا ہے۔

(البركة في فضل السعي  والحركة وما ينجي باذن الله تعالى من الهلكة، الباب الخامس في أربعين حديثًا  كلُّ حديث منها يتضمن لفظ البركة، الحديث الثامن، (ص: 524)، ط/ دار المنهاج 1437ه)

اور پھر کتاب ’’البرکۃ‘‘  سے  ہی علامہ عبد الرحمن  صفوری رحمہ اللہ   (المتوفى: 894ھ)نےبھی  مذکورہ روایت   نقل فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں : 

   "في كتاب البركة: عن النبي صلى الله عليه وسلم كلوا الأرز؛ فإنه بركة". 

يعنی کتاب البرکۃ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ چاول کھاو کہ اس میں برکت ہے ۔

(نزهة المجالس، باب فضل الصلاة  والتسليم على سيد الأوّلين والآخرين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه، فوائد، الخامسة، لطيفة، (2/ 348)، ط/ المكتب الثقافي 1425ھ) 

ليكن   يہ روايت  مذكوره الفاظ کے ساتھ احاديث كی كسی كتاب میں   نہیں مل سکی، البتہ  اس مضمون کی بعض روایات جن میں چاولوں کے شفا ہونے کا تذکرہ  ہے،  محدثین  رحمہم اللہ نے  انہیں من گھڑت قرار دیا ہے،  وہ ضرور موجود ہیں ،   محدثین کی عبارات ملاحظہ فرمائیں: 

(1) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  (المتوفى : 751ھ)  فرماتے ہیں : 

"أَرُزُّ: فيه حديثان باطلان موضوعان على رسولِ الله صلى الله عليه وسلم ؛ أحدهما: أنه "لو كان رجلاً، لكان حليماً"، الثانى: "كُلُّ شىء أخرجتْه الأرضُ ففيه داءٌ وشفاءٌ إلا الأَرُزَّ: فإنه شفاءٌ لا داءَ فيه" ذكرناهما تنبيهاً وتحذيراً من نسبتهما إليه صلى الله عليه وسلم".

يعني  چاول کے بارے میں دومن گھڑت احادیث ہیں۔ پہلی: اگر یہ چاول مرد ہوتا تو بُرد بار ہوتا۔ دوسری : هر وه شے جسے زمین نکالتی ہے ،  اس میں  بیماری اور شفا دونوں ہوتی ہیں ، سوائے چاول کے کہ  وہ صرف شفا ہے، اس میں کوئی بیماری نہیں ہے، ہم نے ان دونوں روایات کو فقط تنبیہ اور رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرکے بیان کرنے سے بچانے کی خاطر ذکر کیا ہے ۔

(زاد المعاد، حرف الهمزة، أَرُزٌّ، (4/  262)، ط/  مؤسسة الرسالة)

(الطب النبوي، حرف الهمزة، (ص: 214)، ط/ دار الهلال - بيروت) 

(2) أبو عبد الله شمس الدين المقدسي الرامينى الصالحي الحنبلي (المتوفى: 763ھ) فرماتے ہیں: 

"يُذْكَرُ فِي الْأُرْزِ خَبَرَانِ مَوْضُوعَانِ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَحَدُهُمَا: لَوْ كَانَ رَجُلًا لَكَانَ حَلِيمًا، وَالْآخَرُ: كُلُّ شَيْءٍ أَخْرَجَتْ الْأَرْضُ فَفِيهِ دَاءٌ، وَشِفَاءٌ إلَّا الْأُرْزَ، فَإِنَّهُ شِفَاءٌ لَا دَاءَ فِيهِ". 

يعني  چاول کے بارے میں دو من گھڑت روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک تو یہ کہ  اگر یہ چاول مرد ہوتا تو بُرد بار ہوتا، دوسری : هر وه شے جسے زمین نکالتی ہے ،  اس میں   بیماری اور شفا دونوں ہوتی ہیں ، سوائے چاول کے کہ  وہ صرف شفا ہے، اس میں کوئی بیماری نہیں ہے۔

(الآداب الشرعية، فَصْلٌ فِي ذِكْرِ مُفْرَدَاتٍ فِيهَا أَخْبَارٌ مِنْ ذَلِكَ، حَرْفُ الْأَلِفِ، (3/ 10) ، ط/عالم الكتب)

(3) علامه ابن حجر هيتمي رحمه الله  (المتوفى: 974ھ) فرماتے ہیں : 

"هَذِه الْأَحَادِيث كلهَا كذب مَوْضُوعَة، لَا يحل رِوَايَة شَيْء مِنْهَا إِلَّا لبَيَان أَنَّهَا كذب مفترى على النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، كَمَا أَفَادَ ذَلِك الْحَافِظ السُّيُوطِيّ شكر الله سَعْيه".

يعنی يه تمام روايات (جن ميں مذکورہ روایت بھی شامل ہے) جھوٹی اور من گھڑت ہیں، جائز نهيں ہے ان میں سے کسی کو بیان کرنا سوائے اس کے کہ اس کے جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہونے کو بیان کرنا مقصود ہو، جیسا کہ  اطلاع دی حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے ،  اللہ تعالي ان کو  ان كي محنت کا اجر دے۔ 

(الفتاوى الحديثية، (ص: 124)، تحت رقم (156 )، ط/ دار الفكر) 

(4) علامہ عجلونی  رحمہ اللہ (المتوفى: 1162ھـ)  فرماتے ہیں : 

"كل شيء أخرجته الأرض فيه شفاء وداء إلا الأرز فإنه شفاء لا داء فيه. قال ابن حجر المكي نقلًا عن السيوطي كذب موضوع".

يعني روايت كه هر وه شيئ جسے زمین نکالتی ہے ، اس میں شفا  اور بیماری دونوں ہوتی ہیں ، سوائے چاول کے کہ  وہ فقط شفا ہے اس میں کوئی بیماری نہیں ہے،  ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے سیوطی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: کہ یہ روایت جھوٹ ہے، من گھڑت ہے۔ 

(كشف الخفاء، حرف الكاف، (2/ 146) برقم (1982)، طـ/ المكتبة العصرية)

لهذا مذكوره روايت  ’’چاول کھاؤ کہ اس میں برکت اور شفا ہے‘‘   جب تک اس کی معتبر سند نہ مل جائے،  اسے سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے ، مزید یہ کہ مذکورہبعض روایات جن میں چاولوں کے شفا ہونے کا تذکرہ ہے، محدثین کی  اُن کے من گھڑت  ہونے کی صراحت کی وجہ سے اسے بھی رسول   اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان  کرنا درست نہیں  ہے ۔ 

(2) سوال میں مذکور دوسری روایت بھی ہمیں کتب احادیث وغیرہ میں نہیں مل سکی، لہذا جب تک کسی مستند کتاب اور معتبر سند سے  اس کا ثبوت نہ ملے،  اس کو  بطورِ حدیث  بیان کرنے  سے  احتراز کیا جائے۔

فقط  واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں