بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیت الخلاء اور وضوخانے کی چھت کو مسجد کا صحن بنانا


سوال

ایک مسجد جس کی قدیم تعمیر میں واقع لیٹرین ،غسل خانے اور وضوخانے کی سطح اور چھت کو توسیع مسجد کی غرض سے تعمیر نو میں صحن مسجد میں شامل کردیا گیا ہو۔

1. کیا اس حصے پر مسجد کے احکام جاری ہوں گے یا نہیں ؟

2.نیز اگر یہ مسجد کے حکم میں ہو تو کیا مسجد کے اندرونی حصے کو چھوڑ کر اس جگہ باجماعت نماز ادا کرنے میں بہ نسبت مسجد کے اندرونی حصے کے ،ثواب میں تفاوت ہوگا؟

3.مزید یہ کہ معتکف کااس حصہ میں بغیر ضرورت کے آنا جاناشرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟

وضاحت: 
جو حصہ نیچے بیت الخلاء وغیرہ پر مشتمل ہے ، اسے وقف نہیں کیا گیا، مسجد کے واقف کا بھی علم نہیں ، گاؤں میں واقع قدیم مسجد ہے ، صرف یہ کیا گیا ہے کہ جدید تعمیر میں سہولت کے لیے مسجد کے صحن کے بعد بیت الخلاء کی چھت کو برابر کردیا گیا ہے تاکہ گنجائش زیادہ ہو۔

جواب

1.صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مسجد کی جدید تعمیر میں بھی بیت الخلاء، غسل خانےا ور وضوخانہ نیچے موجود ہے ، اور ان کی صرف سطح اور چھت کو مسجد کے صحن  کےساتھ برابر کیا گیا ہے، اس صحن کے نیچے بیت الخلاء وغیرہ بدستور موجود ہیں، تو مسجد شرعی کے صحن  کے بعد بقیہ جگہ جو بیت الخلاء وغیرہ کی چھت پر مشتمل ہے ، یہ حصہ مسجد شرعی نہیں کہلائے گا،اور اس پر مسجد شرعی کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

2.مسجد  شرعی یعنی مذکورہ مسجد کے اندرونی حصے کو چھوڑ کر یہاں جماعت کروانے سے مسجد شرعی کی جماعت کا ثواب حاصل نہ ہوگاجب یہ مسجد ہی نہیں ہے تو اس جگہ پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے ۔

3.نیز معتکف کا  اس حصہ میں جو بیت الخلاء کی چھت پر مشتمل ہے ، جانا جائز نہیں، اس سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ 

البحرالرائق میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله و علوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح. فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق. اهـ"

( کتاب الوقف، فصل في أحکام المسجد، ج:5،ص:271، ط: دارالکتاب الإسلامي، بیروت)

 فتاوى هنديہ میں ہے :

"(وأما مفسداته) فمنها الخروج من المسجد فلا يخرج المعتكف من معتكفه ليلا ونهارا إلا بعذر، وإن خرج من غير عذر ساعة فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في المحيط. سواء كان الخروج عامدا أو ناسيا هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم ، الباب السابع في الإعتكاف، ج:1 ،ص:212 ،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں