بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چرس پینا گناہ کبیرہ ہے اور اس حالت میں نماز کا حکم


سوال

چرس پینا گناہ کبیرہ میں آتاہے یا گناہ صغیرہ میں ؟اگر یہ گناہ کبیرہ  ہے تو اس میں نماز پڑھنا کیسے جائز ہے راہ نمائی فرمائیں

جواب

چرس نشہ آور اشیاء میں سے ہے اور نشہ آور اشیاء کا استعمال شرعاً حرام ہے،  لہذا چرس  پینا ناجائز اور حرام ہے،گناه كبيره ميں داخل ہے اور  فساق وغيره كا عمل ہے،باقی اگر چرس پینے کے  بعد  اتنا نشہ چڑھ جائے کہ اس کی چال اپنی حالت پر برقرار نہ رہے اور اس کی زبان سے  بہکی بہکی  باتیں  نکلنے لگیں اور اس کو اپنے ادا کئے ہوئے کلمات کا علم ہی نہ ہوکہ اس نے کیا گفتگو کی ہے تو  اس کا وضو  ٹوٹ جائے گا، اور اس حالت میں نماز پڑھنا بھی جائز نہیں ہوگا، اور اگر چرس پینے سے  نشہ معمولی ہو  یا نشہ نہ ہو  بلکہ  نارمل حالت  ہو   تو   اس  سے  وضو نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح  اگر ہوش وحواس بحال ہوں اور نشہ کی کیفیت نہ ہوتو نماز بھی ادا کی جاسکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"السكر من البنج ولبن الرمكة حرام بالإجماع كذا في جواهر الأخلاطي"۔

(کتاب الأشربة، ص:415، ج:5، ط:رشیدیه)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى حتى تعلموا ما تقولون يدل على أن السكران الذي منع من الصلاة هو الذي قد بلغ به السكر إلى حال لا يدري ما يقول وأن السكران الذي يدري ما يقول لم يتناوله النهي عن فعل الصلاة"۔

(سورۃ النساء، باب الجنب یمر فی المسجد، ص:167، ج:3، ط:دار احیاء التراث العربی)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"وينقضه "سكر" وهو خفة يظهر اثرها بالتمايل وتلعثم الكلام لزوال القوة الماسكة بظلمة الصدر وعدم انتفاع القلب بالعقل"۔

(كتاب الطهارة، فصل نواقض الوضوء، ص:91، ط:دار الكتب العلمية)

کفایت المفتی میں ہے:

"شراب اور دیگر مسکرات حرام ہیں ان کو بغرض سکر استعمال کرنا بھی حرام ہے اور بغرض دوا بھی استعمال کرنا حرام ہے لیکن ایسی حالت میں کہ کسی کو مرض مہلک لاحق ہو اور وہ تمام صورتیں دوا علاج کی ختم کرچکا ہو اور کسی طبیب مسلم حاذق نے یہ بتایا ہو کہ اب تیرا علاج شراب یا تاڑی کے سوا اور کچھ نہیں تو اس کو شراب یا تاڑی استعمال کرنا مباح ہوجاتا ہے"۔

(کتاب الحظر والاباحۃ، ص:126، ج:ج9، ط:دار الاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں