بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چرس کا کاروبار کرنے والے کے ساتھ قربانی میں شرکت کا حکم


سوال

 جو چرس کا کاروبار کرتا ہوں کیا اس کی کمائی حلال ہے ؟ کیا اس کے لئے قربانی کرنا جائز ہے؟ اگر وہ صاحب نصاب ہو اس چرس کی ہی کمائی سے؟ کیا ایسے شخص کیساتھ شرکت میں قربانی کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چرس کا استعمال   نشے کے ساتھ ساتھ ادویہ کے لیے بھی ہوتا ہے، لہٰذا اس کو بیچنے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خریدنے والا اسے نشے یا کسی اور غلط کام کے لیے استعمال نہ کرے، یعنی اگر بیچنے والے کو یہ بات معلوم ہو کہ خریدنے والا چرس کا استعمال نشے کے لیے کرے گا تو اسے بیچنا درست نہیں ہے اور اس کی کمائی بھی مکروہ ہوگی، اور اگر یہ بات معلوم ہو کہ خریدنے والا اسے ادویہ جات کے لیے استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کو بیچنا درست ہے اور اس کی کمائی بھی جائز ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں اگر چرس بیچنے والے کو پتہ ہے کہ خریدنے والا اس کو نشہ کے طور پر استعمال کرے گا اس کے باوجود وہ اسے چرس بیچتا ہے توشرعا یہ جائز نہیں اور اس کمائی بھی حلال نہیں ہےاور ایسے آدمی کی مذکورہ آمدنی کے علاوہ کوئی  دوسری آمدنی نہ ہو تو ایسے شخص کو  ساتھ قربانی میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون

(قوله وصح بيع غير الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها."

(کتاب الأشربة جلد 6 ص: 454 ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق.

(قوله ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف قهستاني (قوله لا تقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية قهستاني عن الجواهر.

أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لا يظهر إلا على قول من قال إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة والأصح خطابهم وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما فتدبر."

(کتاب الحظر و الإباحة جلد 6 ص: 391 ط: دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہےـ:

"وإن كان كل واحد منهم صبيا أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانيا ونحو ذلك لا يجوز للآخرين أيضا كذا في السراجية."

(کتاب الأضحیة , الباب الثامن فیما یتعلق بالشرکة في الضحایا جلد 5 ص: 304 ط: دارالفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال: مسلمان کو افیون، چرس، کوکین کی تجارت کرنا اور اس سے منافع حاصل کرکے اپنی ضروریات زندگی میں صرف کرنا شریعت محمدی سے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی اسی تجارت میں سے کسی دوسرے مسلمان کی دعوت کرے، اس شخص کو باوجود رلم ہونے کے دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: افیون، بھنگ، کوکین یہ تمام چیزیں پاک ہیں، اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائز ہے، مگر ان سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائز ہے۔"

(کتاب الحظر والابحہ، ماکولات و مشروبات، ص: ۱۲۹، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں