بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چہرے کے تینوں اطراف داڑھی کی مقدار کا حکم


سوال

1۔ داڑھی ٹھوڑی والی سائیڈ سے کم سے کم کتنی ہونی چاہیے؟  اور گال والی سائیڈ سے کم سے کم کتنی اور زیادہ سے زیادہ کتنی ہونی چاہیے؟  اور کیا گال والی سائیڈ سے کٹوا نا جائز  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کانوں  کے پاس  جہاں سے  جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور  پورا جبڑا  داڑھی کی حد ہے، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، چہرے کے تینوں اطراف داڑھی کے بال کم از کم ایک مشت ہونا ضروری ہے،  اس سے زائد بال ہوں تو ایک مشت کی حد تک اس کو کاٹ سکتے ہیں، اسی طرح   ٹھوڑی اور جبڑے کے علاوہ رخسار اور گردن کے بالوں کو صاف کرنا اور خط بنوانا جائز ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولا بأس بنتف الشيب، وأخذ ‌أطراف ‌اللحية والسنة فيها القبضة...قوله (والسنة فيها القبضة) وهو أن يقبض الرجل لحيته، فما زاد منها على قبضة قطعه، كذا ذكره محمد في كتاب الآثار عن الإمام، قال: وبه نأخذ، محيط اه ط."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:307، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الإرشاد ‌اللحية ‌الشعر ‌النابت بمجتمع اللحيين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:16، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌والقص ‌سنة ‌فيها وهو أن يقبض الرجل لحيته فإن زاد منها على قبضته قطعه كذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الآثار عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قال وبه نأخذ كذا في محيط السرخسي."

كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها، ج:5، ص:358، ط:دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، ج:2، ص:347-348، ط:دار الفكر)

"العرف الشذي شرح ترمذي" میں ہے:

"وأما تقصير اللحية بحيث تصير قصيرة من القبضة فغير جائز في المذاهب الأربعة."

(‌‌كتاب الآداب، ‌‌باب ما جاء في تقليم الأظفار، ج:4، ص:162، ط:دار التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں