بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

کرنسی کے احکام


سوال

1۔ اگر کوئی شخص پاکستان میں کسی صراف کو چار لاکھ روپے دے، اور اس صراف کو یہ کہے کہ چائنہ میں فلاں آدمی کو اس چار لاکھ پاکستانی روپے کیRmb (چائنہ کی کرنسی) دے دے، اس کا شرعا کیا حکم ہے؟

2۔ کسی صراف کو ابھی پیسے دیے جائیں،اور صراف یہ کہے کہ اگر ان پیسوں کے Rmb(چائنہ کی کرنسی ) ابھی چاہیے تو 40 پاکستانی روپے کا ایک  Rmb(چائنہ کی کرنسی) ملے گا،اور اگر کچھ عرصے بعد چاہے، تو42 پاکستانی روپے کا ایک Rmb(چائنہ کی کرنسی)  ملے گا۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں اگر کوئی شخص پاکستان میں کسی صراف کو چار لاکھ روپے دے، اور اس صراف کو یہ کہے کہ چائنہ میں فلاں آدمی کو اس چار لاکھ پاکستانی روپے کیRmb(چائنہ کی کرنسی )دے دے،تو قرض ہونے کی وجہ سے جائز ہے،لیکن یہ ضروری ہوگا کہ جس دن رقم دی جا رہی ہے اس دن کے مارکیٹ ریٹ یا ادائیگی کے دن مارکیٹ میں جو ریٹ چل رہے ہوں، ان میں سے کسی ایک ریٹ کے حساب سے ادا کرے، اور اگر رائج قیمت سے زیادہ یا کم متعین کی جائے گی تو پھر جائز نہیں ہوگا۔ 

2۔صورت مسئولہ میں اگر کسی صراف کو ابھی پیسے دیے جائیں،اور صراف یہ کہے کہ اگر ان پیسوں کے Rmb(چائنہ کی کرنسی ) ابھی چاہیے تو 40 پاکستانی روپے کا ایک  Rmb(چائنہ کی کرنسی) ملے گا،اور اگر کچھ عرصے بعد چاہیے، تو42 پاکستانی روپے کا ایک Rmb(چائنہ کی کرنسی)  ملے گا،تو یہ معاملہ شرعا ناجائز ہے،کیوں کہ یہ معاملہ قرض کا ہے اور قرض میں اس طرح شرط کر کے نفع لینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) قبض البدلين في بيع الدين بالدين وهو عقد الصرف، (أما) الأول فالصرف في متعارف الشرع " اسم لبيع الأثمان المطلقة بعضها ببعض وهو بيع الذهب بالذهب والفضة بالفضة وأحد الجنسين بالآخر"، فاحتمل تسمية هذا النوع من البيع صرفا لمعنى الرد والنقل.

وأما الشرائط (فمنها) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله: - عليه الصلاة والسلام - في الحديث المشهور «والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد».وروي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز».وروي عن عبد الله ابن سيدنا عمر عن أبيه - رضي الله عنهما - أنه قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تبيعوا الذهب بالورق أحدهما غائب والآخر ناجز، وإن استنظرك حتى يلج بيته فلا تنظره إني أخاف عليكم الرماء أي: الربا،فدلت هذه النصوص على اشتراط قبض البدلين قبل الافتراق، وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما فيأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر حتى لو كانا في مجلسهما لم يبرحا عنه لم يكونا مفترقين وإن طال مجلسهما؛ لانعدام الافتراق بأبدانهما."

(بدائع الصنائع: كتاب البيوع، ج:7 ص:162، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں