بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار تولہ سونے پر زکوۃ کا حکم


سوال

میری بیوی کے پاس 4.77 تولہ سونا ہے جس کی قیمت 848000 روپے ہے  ،اور میرے نام پر ایک 70 موٹر سائیکل جس کی قیمت 45000 ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ میری تنخواہ 35 ہزار ہے جو ہمارے گزارہ کے لیے استعمال ہوتی ہے، کیا ہم پر زکوٰۃ واجب ہے؟ اور کتنی زکوٰۃ ادا کرنی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو،اس کے علاوہ نقدی،مالِ تجارت،چاندی وغیرہ کچھ نہ ہو،  اور وہ سات تولہ سے کم ہو ،تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی،اور اگر  کچھ نقدی  یا مالِ تجارت یا چاندی   ساتھ موجود ہو  تو پھر  سونے کی قیمت کو باقی اشیاء  کی قیمت کے ساتھ  ملا کر دیکھا جائے گا اگر اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی   کی مالیت تک پہنچتا ہو ،تو سال گزرنے پر اس  میں زکوۃ واجب ہو گی،ورنہ نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کی بیوی کے پاس صرف/ 4.77  تولہ سونا  ہے،مزید کچھ بھی نہیں ہے، جس طرح سوال میں مذکور ہے،تو اس پر زکوۃ  واجب نہیں ہے،البتہ اگر اس کے پاس  کچھ نقدی  وغیرہ   آجاتی ہے تو اور وہ موجود رہتی ہے  پھر   اگر سونے پر سال گزر گیا ہو تو   اس  میں زکوۃ واجب ہو گی۔

زکوۃ کی ادئیگی  میں مال کا چالیسواں حصہ(ڈھائی فیصد)زکوۃ میں ادا کیا جائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ فی الحال آپ دونوں پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

التجريد للقدوری ميں هے:

"قال أصحابنا: إذا كان معه من الذهب والفضة ما لا يتم من كل واحد نصاب ضم أحدهما إلى الآخر في إحدى الروايتين عند أبي حنيفة بالقيمة، وفي الأخرى: بالأجزاء".

(كتاب الزكوة، ‌‌مسألة 332 إذا كان معه من الذهب والفضة ما لا يتم من كل واحد نصاب ضم أحدهما إلى الآخر، ج:3، ص:1311،دار السلام - القاهرة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقوما بعشرة دراهم.

وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك ‌في ‌الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا".

(کتاب الزکوۃ، فصل كان له ذهب مفرد، ج:2، ص:18، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

وفیہ ایضاً:

"وأما مقدار الواجب فيها فربع العشر وهو خمسة من مائتين؛ للأحاديث التي روينا إذ المقادير لا تعرف إلا توقيفا وقوله صلى الله عليه وسلم: «هاتوا ربع عشور أموالكم» وخمسة من مائتين ربع عشرها".

(کتاب الزکوۃ، فصل مقدار الواجب في زكاة الفضة، ج:2، ص:18، ط::مطبعة الجمالية بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں