بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار تولہ سونا پر کتنی زکوۃ لازم آئے گی ؟


سوال

میرے پاس چارتولہ سوناہے تو اس پر کتنی زکوۃ لازم ہوگی؟

جواب

واضح  رہے  کہ صرف سونے  کی زکوٰۃ  کا  نصاب  ساڑھے سات تولہ ہے۔ لہٰذا اگر چار تولہ سونے کے ساتھ  کوئی اورقابلِ زکوٰۃ  مال(چاندی، مالِ تجارت، نقد رقم) نہ ہوتو  اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔  لیکن اگر سونےکے ساتھ چاندی، مالِ تجارت یا رقم ہو،ایک قول کے مطابق  رقم کی مقدار چاندی کے نصاب کے چالیسویں حصے کے برابر ہو یعنی پانچ درہم، تو  ایسی صورت میں  سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا  بلکہ چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا،  لہٰذا چار تولہ سونا اور مذکورہ اشیاء میں سے کسی چیز   کی قیمت مجموعی اعتبار سے اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو ایسی صورت میں  آدمی صاحبِ  نصاب شمار ہوگا  اور قمری مہینوں کے اعتبار سے نصاب پر  سال گزرنے کے بعد اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ  واجب الادا ہوگا۔

صورتِ  مسئولہ  میں اگرآپ کے پاس  صرف یہ چار تولہ سونا   ہو اس کے علاوہ کوئی اور قابلِ زکوۃ مال نہ ہوتو اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی ، اور اگر اس کے ساتھ کوئی قابلِ زکوۃ مال ہو مثلاً نقد رقم ، چاندی اور ان سب کو ملا کر اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو، اس پر سال بھی گزر گیا ہوتو  ڈھائی فیصد ( چالیسواں حصہ) زکوۃ  واجب ہو جائے گی۔

 سنن أبی داود میں ہے:

"عَنْ عَلِيٍّ، - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَىْءٌ - يَعْنِي فِي الذَّهَبِ - حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ"‏.‏

(كتاب الزكاة، باب زكاة السائمة،100/2، المكتبة العصرية، بيروت)

 بدائع الصنائع  میں ہے:

"فأما ‌إذا ‌كان ‌له ‌الصنفان ‌جميعًا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابًا بأن كان له عشرة مثاقيل و مائة درهم؛ فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.

و عند الشافعي لايضمّ أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة."

(كتاب الزكاة، فصل: مقدار الواجب في زكاة الذهب،344/2، ط: المكتبة التوفيقية، مصر)

فتاوى ہنديہ میں ہے:

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويمبما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، 179/1، ط؛ دار صادر، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506102441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں