بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار رکعت والی نماز میں دو رکعتوں کے بعد بھول کر سلام پھیرنے کا حکم


سوال

چار رکعت والی نماز میں بھول ہوگئی، بھول یہ ہوئی کہ دوسری رکعت کے آخر میں نمازی سلام پھیرنے لگا، سلام پھیرتے ہوئے یاد آیا کہ ابھی دو رکعت باقی ہیں، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چار رکعت کی نیت سے نماز شروع کرنے والے شخص کو دوسری رکعت کے آخر میں بھولے سے سلام  پھیرتے ہوئے یا مکمل سلام پھیرنے کے بعد دو رکعات باقی رہ جانا یاد آجائےتو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ جب تک نماز کے منافی  کوئی کام نہ کیا ہو اور نمازی کا رخ قبلہ  سے نہ  ہٹا ہو نمازی فوراً تکبیر کہتا ہواکھڑا ہوجائے،بقیہ دو رکعات مکمل کرلے اور آخر میں سجدۂ سہو ادا کرلے، ایسا کرنے سے چار رکعت والی نماز ادا ہو جائے گی، دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

البتہ اگر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیردیا اور نماز کے منافی کوئی کام کردیا، مثلاً:بات چیت کرلی، قبلہ سے سینہ پھیرلیا تو دو رکعت الگ نفل نماز شمار ہوں گی، جن چار رکعتوں کی ادائیگی کی نیت کی تھی، وہ نئے سرے سے  ادا کی جائیں گی۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"إذا سلم في الظهر على رأس الركعتين ساهياً مضى على صلاته؛ لأن هذا سلام السهو، وسلام السهو لا يخرجه عن حرمة الصلاة، ويسجد للسهو؛ لأنه أخر ركناً من أركان الصلاة عن وقته، وقوله مضى على صلاته استحسان.والقياس وهو: أن سلام الساهي ككلامه، ولو تكلم ساهياً فسدت صلاته، فكذلك إذا سلم ناسياً يدل عليه أن سلام العامد جعل ككلامه وإن وجد في غير موضع السلام فكذلك سلام الناسي وجب أن يجعل ككلامه.وجه الاستحسان وهو: أن النبي عليه السلام سلم على رأس الركعتين من الظهر ساهياً ثم قام فأتم صلاته، ولأن السلام ليس بكلام محض، وإنما هو كلام يشبه معنى الذكر، وإنه ما يجزىء في السجدة، ولو كان كلاماً محضاً لم يصلح في الصلاة، فثبت أنه يشبه الذكر من وجه، ويشبه الكلام من وجه، فيعطى له حظاً منهما، ففي حالة النسيان عيّنّا جهة الذكر ولم تفسد صلاته، وفي حالة العمد عيّنّا جهة الكلام وأفسدنا صلاته، ويجوز أن يكون الكلام واحداً ويختلف الحكم بالقصد."

(كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ج:١، ص:٥١٤، ط:دارالكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا ‌يجب ‌السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب."

(كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج:١، ص:١٢٦، ط:رشيدية)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سہواً دونوں طرف سلام پھیر دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، باقی رکعات پڑھ کر آخر میں سجدۂ سہو کر لیوے،  نماز صحیح ہوگی۔"

(کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو، ج:4، ص:289، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں