بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار رکعت والی نماز اگر پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا حکم ہے؟


سوال

امام فرض چار رکعات کی جگہ پانچ رکعات پڑھا دے تو  کیا حکم ہے؟

جواب

اس مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں:

1۔اگر امام  چوتھی رکعت کے قعدے میں بیٹھنے کے بعد پانچویں رکعت کے لیے  کھڑا ہوا، اور پانچویں رکعت کے سجدے سے قبل اس کو یاد آگیا کہ یہ پانچویں رکعت ہے ،تو ایسی صورت میں واپس قعدہ کی طرف لوٹ آۓ  اور  تشہد  پڑھ کر پھر سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے،اور اس  صورت میں نماز کی ادائیگی صحیح ہوجاۓ گی۔

2۔اگر پانچویں رکعت کے سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا کہ یہ تو پانچویں رکعت ہے ،تو اس صورت میں  بہتر  یہ ہے کہ ، مزید ایک رکعت ملا کر کل چھ رکعات نماز سجدہ سہو کے ساتھ مکمل کرلے، چار رکعت فرض ہوجاۓ گی اور دو رکعت نفل ۔

3۔اگر چوتھی رکعت کے قعدے میں سرے سے بیٹھا ہی نہیں، تو ایسی  صورت  میں  اگر پانچویں رکعت کے سجدے سے قبل یاد آگیا، یہ پانچویں رکعت ہے تو واپس قعدے کی طرف لوٹ آۓ اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرنے کی صورت میں نماز  کی ادائیگی صحیح ہوجاۓ گی۔

4۔اگر چوتھی رکعت کے قعدے میں سرے سے بیٹھا ہی نہیں، تو ایسی  صورت  میں  اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ،تو  نماز فاسد ہوجاۓ گی اور اس نماز  کو از سر نو ادا کرنا ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر امام  چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھنے کے بعد پانچویں رکعت  کے لیے کھڑا ہوگیا  یا  چوتھی رکعت کے قعدے میں بیٹھے بغیر  پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا، پھر پانچویں رکعت کے سجدے سے قبل ہی قعدہ کی طرف لوٹ آیا ،اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کر لی، تو ایسی صورت میں نماز کی ادائیگی درست ہو جاۓ گی، لیکن اگر  چوتھی رکعت کے قعدے میں بیٹھے بغیر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو ا،اور پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا تو ایسی صورت میں نماز فاسد ہوجاۓ گی اور ازسر نو نماز پڑھنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’"رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج.

وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ...

وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية.

وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة،الباب الثاني عشر في سجود السهو،فصل سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود،129/1، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں