بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چارماہ کے حمل کو ضائع کرنا


سوال

 اگرشوہر کی طرف سے بہت شدید ذہنی اذیت کی وجہ سے چار ماہ کا حمل گرجائے تواب کیاحکم ہے ؟ گولیاں بھی شوہرخودلائے تھے، میں نے بہت رو روکر سمجھایاکہ یہ کام حرام ہے ، لیکن وہ نہ مانے ، پہلے دوبچے تھے ، اورشوہرکے والدین کوبھی یہ بات نہیں پتہ ، میرے شوہر خودعامل ہیں ، اس لیے ان کی باتوں میں آگئی ، اب دل پر بہت بوجھ ہے ، ایسابوجھ ہے کہ اترتانہیں ہے ، جب سے وہ بچہ ضائع ہواہے ہمارے درمیان بہت نفرتیں بڑھ گئی ہیں ، میرادل اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کو نہیں کرتا اب میں کیاکروں ؟ اس گناہ کاازالہ کیسے کروں بہت ڈپریشن میں چلی گئی ہوں پلیز راہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں اسقاط حمل چار ماہ کے بعد   قتل اولاد کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے۔ لہذا چار ماہ کے بعد  اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر شوہرکے جبرکرنےپر گولیاں کھانے کی وجہ سے حمل گراہے تواس صورت میں دیت وغیرہ لازم نہیں ۔البتہ اس ناجائز اورحرام فعل کے ارتکاب پر میاں بیوی دونوں   اللہ کے حضور صدق دل سے توبہ و استغفارکریں، اورآئندہ ایساکام نہ کریں۔

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: ‌بقي ‌هل ‌يباح ‌الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما."

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل".

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي."

(كتاب الجنايات، ج:6، ص:35، ط:دارالفكر)

الفقہ الإسلامی و أدلتہ میں ہے:

"إذا انفصل الجنين عن أمه ميتاً، فعقوبة الجاني هي دية الجنين، ودية الجنين ذكراً أو أنثى، عمداً أو خطأ: غرة ـ عبد أو أمة، قيمتها خمس من الإبل، أي نصف عشر الدية، أو ما يعادلها وهو خمسون دينارا أو ‌خمس ‌مئة ‌درهم عند الحنفية."

(القسم الخامس، الباب الثالث، ج:7، ص:5771، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں