بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ماہ کا بچہ ضائع ہوا، اس کے بعد مسلسل خون جاری ہوگیا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟


سوال

  میرا چار مہینے کا بچہ ضائع ہو چکا ہے اور خون دو مہینے سے نہیں رکا، یہ نفاس ہے یا کچھ اور، مزید مجھے نماز و تلاوت کی ترتیب بتا دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

جواب

صورتِ مسئولہ میں چار ماہ کا بچہ جب ضائع ہوا اور اس کے بعد جو خون جاری ہواتو وہ نفاس کا خون تھا، لیکن جب یہ خون چالیس دنوں سے اوپر چلا گیا تو اب اگر اس عورت کے ہاں پہلی مرتبہ ولادت ہوئی ہے تو چالیس دنوں تک اور اگر پہلے بھی ولادت ہوچکی ہے تو جتنے دن اس عورت کو نفاس کا خون آنے کی عادت تھی، اتنے دنوں تک تو نفاس کا خون تھا، اس کے بعد جو خون آرہا ہے وہ استحاضہ کا خون ہے، استحاضہ کے دوران عورت پر نماز بھی فرض ہوتی ہے اور اگر رمضان کا مہینہ آجائے تو روزے رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

البتہ خون چوں کہ مسلسل جاری ہوتا ہے، اس لیے ایسی عورت وضو کے حکم میں معذور شمار ہوتی ہے، ایسی عورت کے لیے وضو کا حکم یہ ہے کہ یہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے گی، یعنی جس نماز کے وقت میں یہ عورت وضو کرے گی تو جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے (اگرچہ خون جاری ہو) اس وقت تک اس کا وضو باقی سمجھا جائے گا (بشرط یہ کہ وضو ٹوٹنے کا اس کے علاوہ کوئی اور سبب نہ پایا جائے) اور اس وضو سے اس نماز کے وقت کے دوران جو چاہے فرض نماز، نفل نماز، تلاوت قرآن وغیرہ سب اعمال کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"السقط إن ظهر بعض خلقه من أصبع أو ظفر أو شعر ولد فتصير به نفساء. هكذا في التبيين."

(کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثانی فی النفاس، ج: 1، ص: 37، ط: مکتبہ رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

"لا يستبين خلقه إلا في مائة وعشرين يوما."

(کتاب الطہارۃ، باب الحیض، احکام النفاس، ج: 1، ص: 229، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط."

(کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الثانی فی النفاس، ج: 1، ص: 37، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"(ودم الاستحاضة) كالرعاف الدائم لا يمنع الصلاة ولا الصوم ولا الوطء. كذا في الهداية."

(کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضۃ، ج: 1، ص: 39، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق."

(کتاب الطہارۃ، الباب السادس فی الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضۃ، ج: 1، ص: 41، ط: مکتبہ رشیدیہ)

درِ مختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب فی احکام المعذور،ج: 1، ص: 307، ط: ایچ ایم سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں