بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ماہ کے بعد اسقاط حمل کا حکم


سوال

چار ماہ کا حمل ضائع کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں اسقاط حمل چار ماہ کے بعد   قتل اولاد کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے۔ لہذا چار ماہ کے بعد کسی بھی صورت میں اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے۔

اگر بیوی نے  اسقاط حمل شوہر کی اجازت کے بغیر کیا ہو تو اس صورت میں بیوی کے عاقلہ پر غرہ( ایک غلام کی قیمت) يعنی پانچ سو درہم (131.25 تولہ چاندی) لازم ہوں گے، اور اگر شوہر بھی اس جرم میں شریک ہوا، اور اس کی اجازت سے اسقاطِ حمل کیا ہے تو اس صورت میں بیوی کے عاقلہ (ورثاء) پر  کچھ لازم نہیں ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: ‌بقي ‌هل ‌يباح ‌الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما."

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

وفيه أيضاّ:

"ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل".

(كتاب النكاح ، ج:3، ص:176، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي."

(كتاب الجنايات، ج:6، ص:35، ط:دارالفكر)

الفقہ الإسلامی و أدلتہ میں ہے:

"إذا انفصل الجنين عن أمه ميتاً، فعقوبة الجاني هي دية الجنين، ودية الجنين ذكراً أو أنثى، عمداً أو خطأ: غرة ـ عبد أو أمة، قيمتها خمس من الإبل، أي نصف عشر الدية، أو ما يعادلها وهو خمسون دينارا أو ‌خمس ‌مئة ‌درهم عند الحنفية."

(القسم الخامس، الباب الثالث، ج:7، ص:5771، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں