بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ماہ کی مدت طے کرکے گندم کی خریداری کا معاملہ کرنا


سوال

ہم نے گندم خریدنی ہے، گندم چار ماہ بعد آئے گی،جب کہ قیمت طے کر کے  ابھی ادا کرنی ہے، قیمت دونوں فریقوں کی مشاورت سے طے ہو گی، قرآن و حدیث کی روشنی سے کیا اس طرح تجارت کرنا درست ہےیا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ گندم کی خریداری کا آپ جو معاملہ کر رہے ہیں اسے بیع سلم کہا جاتا ہے، یہ ایسی بیع ہے جس میں ثمن یعنی قیمت پر تو  مجلسِ عقد میں قبضہ ہوتا ہے اور مبیع یعنی مال پر ایک متعینہ  مدت کے بعد قبضہ ہوتا ہے، شریعت کا عمومی ضابطہ تو یہی ہے کہ قبضے سے پہلے بیع جائزنہیں ہے، اس اصول کے اعتبار سے بیعِ سلم، قبل القبض ہونے کی بنا پر ناجائز ہی ہوتی، لیکن شریعت نے ضرورت کی بنا پر مخصوص شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی چیز کی بیع سلم کرے تو متعین پیمانہ اور وزن سے متعین مدت کے لیے کرے"۔

بیع سلم ایسی چیزوں میں ہی ہوسکتی ہے جن کی مقدار اور صفات کی تعیین کی جاسکتی ہو۔ اور بیع سلم کے وقت ان اشیاء کی جنس، صفات اور مقدار  اس طور پر متعین کرنا ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت  فریقین کا تنازع نہ ہو، اور وہ چار قسم کی چیزیں ہیں: 1۔کیلی : جن کی مقدار پیمانے سے ناپ کر متعین کی جاتی ہے، جیسے : تیل وشہد وغیرہ۔ 2۔ وزنی: جن کی خریدوفروخت باٹ وترازو وغیرہ سے تول کر کی جاتی ہے، جیسے: چاول، چنے وغیرہ۔ 3۔ ذرعی: جن کی پیمائش ہاتھ اور گز وغیرہ سے کی جاتی ہے، جیسے: کپڑے وغیرہ.۔4۔ عددی متقارب: جو گن کر دی جاتی ہیں اور ان کے افراد میں تفاوت بہت کم ہوتا ہے۔ جیسے: اخروٹ،انڈے، اینٹ، کمپنی کے جوس یا وہ اشیاء جن کے افراد میں تفاوت نہیں ہوتا وغیرہ۔سلم کا معاملہ انہی چیزوں میں درست ہوسکتا ہے۔

مبیع کی جنس، نوع ،صفت اور مقدار کی تعیین کے علاوہ بیع سلم کے جواز کی دیگرلازمی شرائط یہ ہیں:

 خریدار مجلس عقد ہی کے اندر پوری قیمت ادا کردے،ادھارجائز نہیں ہے۔

مبیع (فروخت کردہ چیز) کی حوالگی ادھار ہو اور اس کے لیے مدت مقرر ہو ۔ 

جس چیز کی بیع ہو وہ عقد کے وقت سے حوالگی کے وقت تک بازار میں موجود ہو۔

بیچی گئی چیز کی حوالگی کا وقت اور مقام نیز مبیع کی حوالگی (میں اگر اخراجات ہوں تو حوالگی)کے اخراجات کا تعین پہلے کیاجائے تاکہ فریقین کا تنازع نہ ہو۔

اگر قیمت نقد رقم کے علاوہ ایسی چیز مقرر کی گئی جو ناپ یا تول کردی جاتی ہے تو اس کی جنس، صفات اور مقدار کا تعین بھی ضروری ہوگا۔

لہٰذا مندرجہ بالا تمام شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے چار ماہ کی مدت طے کرکے آپ کا گندم کی بیع سلم کرنا جائز ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"قال: (وإذا أسلم الرجل في الطعام كيلا معلوما وأجلا معلوما وضربا من الطعام وسطا أو رديا أو جيدا واشترط المكان الذي يوفيه فيه فهو جائز) قال: - رحمه الله تعالى - (اعلم بأن السلم أخذ عاجل بآجل وهو نوع بيع لمبادلة المال بالمال اختص باسم) لاختصاصه بحكم يدل الاسم عليه وهو تعجيل أحد البدلين وتأخير الآخر كالصرف...وإنما سمي هذا العقد به لكونه معجلا على وقته فإن أوان البيع ما بعد وجود المعقود عليه في ملك العاقد وإنما يقبل السلم في العادة فيما ليس بموجود في ملكه فلكون العقد معجلا على وقته سمي سلما وسلفا، والقياس يأبى جوازه؛ لأنه بيع المعدوم وبيع ما هو موجود غير مملوك للعاقد باطل فبيع المعدوم أولى بالبطلان ولكنا تركنا القياس بالكتاب والسنة أما الكتاب فقوله: - تعالى - {يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى فاكتبوه} [البقرة: 282] وقال ابن عباس: أشهد أن السلم المؤجل في كتاب الله - تعالى - أنزل فيه أطول آية وتلا هذه الآية والسنة ما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم» ففي هذا دليل أنه جوزه للحاجة مع قيام السبب المعجز له عن التسليم وهو عدم وجوده في ملكه ولكن بطريق إقامة الأجل مقام الوجود في ملكه رخصة؛ لأن بالوجود في ملكه يقدر على التسليم وبالأجل كذلك فإنه يقدر على التسليم إما بالتكسب في المدة أو مجيء أوان الحصاد في الطعام وفي الحديث عن ابن عباس - رضي الله تعالى عنه - أن «النبي - صلى الله عليه وسلم - دخل المدينة فوجدهم يسلفون في الثمار السنة والسنتين فقال: - صلوات الله تعالى عليه - من أسلم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم» فقد قررهم على أصل العقد.

وبين شرائطه فذلك دليل جواز العقد ثم الشرائط التي يحتاج إلى ذكرها في السلم عند أبي حنيفة سبعة (إعلام) الجنس في المسلم فيه (وإعلام النوع) (وإعلام القدر) و (إعلام الصفة) و (إعلام الأجل) و (إعلام المكان) الذي يوفيه فيه فيما له حمل ومؤنة وإعلام قدر رأس المال فيما يتعلق العقد على قدره، والأصل في هذه الشرائط الحديث الذي روينا."

(كتاب السلم، شرائط السلم، ج:١٢، ص:١٢٤، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں