بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار دن کے بعد حیض بند ہونے کی صورت میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

چار دن تک حیض آئے، اس کے بعد نہ آئے، تو غسل کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حیض  کی کم سے کم مدت تین دن، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے، اگر کسی عورت کو تین سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آئے،  تو وہ حیض شمار نہیں  ہوگا، بلکہ بیماری شمار ہوگا، اس میں نماز پڑھنا ضروری ہے، تلاوت بھی کرسکتی ہے، اور اپنے شوہر کے ساتھ ہمبستری بھی کرسکتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی عورت کو چار دن تک حیض کا خون آئے، اور چار دن کے بعد حیض کاخون آنا بند ہوجائے، تو اگر اس کی عادت ہی چار دن کی ہے تواس صورت میں مذکورہ عورت غسل کرکے نماز وغیرہ پڑھےگی، اور اگر عادت چار دن سے زیادہ ہے مثلا چھ یا سات دن ہے تو پھر عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ ایام عادت تک انتظار کرے پھر اگر خون دس دن کے اندر نہ آئے تو غسل کرکے ان نمازوں کی قضا کرے، اور اگر خون آکردس  دن میں بند ہو جائے تو یہی سمجھے کہ عادت بدل گئی، جب سے خون بند ہو غسل کر کے نماز پڑھے۔

تاہم بہتر یہ ہے کہ مذکورہ عورت کی ماہواری کی عادت کو بتلاکر دوبارہ  جواب معلوم کرلیا جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"‌و (‌أقله ‌ثلاثة ‌بلياليها) الثلاث... (وأكثره عشرة) بعشر ليال."

(شامي، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، ج: 1، ص: 284، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"ولو رأت ‌المعتادة قبل عادتها يوما دما وعشرة طهرا ويوما دما فالعشرة التي لم تر فيها الدم حيض إن كانت عادتها وإلا ردت إلى أيام عادتها."

(شامي، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، ج: 1، ص: 290، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه.

وفي الرد: (قوله وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر. (قوله وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب كما في النهاية والفتح وغيرهما."

(رد المحتار، کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 294، ط: سعید)

رد المحتار میں ہے:

"والمعتادة بخمسة مثلا إذا رأت الدم حين طلع نصفه وانقطع في الحادي عشر حين طلع ثلثاه فالزائد على الخمسة استحاضة؛ لأنه زاد على العشرة بقدر السدس. اهـ أي سدس القرص... أما المعتادة فما زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة كما أشار إليه بقوله أو على العادة إلخ. أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا ونفاسا رحمتي."

(شامي، کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 285، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں