بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار دن کے بعد حیض بند ہونے کی صورت میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مجھے4 مئی کو حیض سے پاکی ملی اس کے بعد17مئی کو دوبارہ خون شروع ہوگیا،جو کے 22 مئی کو ختم ہو گیا،پوچھنا یہ تھا کہ ان دنوں کا کیا حکم ہے؟حیض یااستحاضہ شمار ہوں گے یا کوئی اور حکم لگے گا؟ اور اب 22 مئی کو پاکی کے بعدنمازاور روزے اور میاں بیوی کے ملنے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کے پچھلے مہینےاپریل میں مجھے 15 دن کی پاکی ملی تھی اور میری عادت حیض کی دس دن دس رات کی ہے۔

جواب

واضح رہےکہ حیض کی کم سےکم مدت تین دن اورتین راتیں ہیں،اورزیادہ سےزیادہ دس دن اوردس رات ہے،اوردوحیضوں کےدرمیان پاکی کاکم سےکم زمانہ پندرہ دن ہوتاہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کو 4مئی کوپاکی ملی،تو18 مئی تک پاکی کازمانہ ہے،لیکن جب 17مئی کوخون شروع ہوا،توان میں پہلایعنی18مئی والا دن استحاضہ شمارہوگا،اوراس کےبعد 22مئی تک چاردن حیض شمارہوگا،چوں کہ سائلہ کی عادت مہینےمیں دس دن اوردس رات ہے،توجب سائلہ کاعادت سے4دن پہلے ہی خون بند ہوا،تواس کےبعد اگردس دن کےاندراندر دوبارہ خون نہیں آیاتھا،توسائلہ  کی عادت دس دن سےتبدیل ہوکرچاردن ہوگئی ہے،اورایسی صورت میں اگرسائلہ نے 22مئی کےبعد نماز اوردیگر عبادات وغیرہ ادا نہ کی ہوتوسائلہ پر اس کی قضاءلازمی ہے،اگردس دن کےاندراندر دوبارہ خون آیا تودیکھاجائےگاکہ اگر پورےدس دن پر سابقہ عادت کے مطابق خون آکر خون روکاہے،تویہ سب کےسب دن حیض شمارہوں گے،لیکن اگردس دن سےبڑھ گیاہے،توپھرسائلہ عادت کےمطابق دس دن حیض اورباقی ایام ِاستحاضہ شمارہوگااور 17 مئی سے 22 مئی تک کا خون استحاضہ شمار ہوگا۔

فتاوٰی شامی  میں ہے:

"ولو رأت ‌المعتادة قبل عادتها يوما دما وعشرة طهرا ويوما دما فالعشرة التي لم تر فيها الدم حيض إن كانت عادتها وإلا ردت إلى أيام عادتها."

(کتاب الطھارۃ، باب الحیض، ج: 1، ص: 290، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه.وفي الرد: (قوله وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر. (قوله وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب كما في النهاية والفتح وغيرهما."

( کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 294، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"والمعتادة بخمسة مثلا إذا رأت الدم حين طلع نصفه وانقطع في الحادي عشر حين طلع ثلثاه فالزائد على الخمسة استحاضة؛ لأنه زاد على العشرة بقدر السدس. اهـ أي سدس القرص....أما المعتادة فما زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة كما أشار إليه بقوله أو على العادة إلخ. أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا ونفاسا رحمتي."

(کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 285، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں