بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار بیٹیوں، ایک بہن میں میراث کی تقسیم


سوال

مرنے  والے  کے دو چھوٹے بھائی تھے اور دو چھوٹی بہنیں تھیں ،  دونوں بھائی اور ایک بہن اس کے مرنے سے پہلے فوت ہوگئے تھے،  ایک بھائی کی بیوی اور بیٹے کو اس نے اپنا آبائی گھر دے دیا تھا؛ کیوں کہ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی،  ایک بیوہ  بہن ابھی حیات ہے،  اپنے ایک بیٹے کے پاس امریکا میں  رہتی ہے،  میت کی بیوی پہلے فوت ہوئی اس کے بعد بیٹا فوت ہوا،  میت کی فوتگی کے وقت اس کی  باقی چار بیٹیاں حیات تھیں جو  اب بھی حیات ہیں،  میت کےوالدین بھی پہلے کے فوت ہو چکے ہیں ،  میت کے صرف چار ہی بچے تھے۔ بیٹا غیر شادی تھا،  اور چاروں بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ مرنے والے نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی،  مگر ایک مکان جس میں وہ رہائش پذیر تھا،  اس میں اپنے نام کے ساتھ بیٹیوں کا نام بھی لکھا ہوا ہے!

جواب

بصورتِ مسئولہ مرحوم  کی جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہوگا  کہ مرحوم کی جائیداد سے حقوقِ متقدمہ  ( یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اور مرحوم ذمہ واجب الادا  قرض اور جائز وصیت کے   مابقیہ ترکے کے ایک تہائی سے نفاذ کے بعد)  کل جائیدادِ منقولہ وغیرمنقولہ کو چھ (6) حصوں میں تقسیم کرکے ایک/ ایک حصہ مرحوم کی ہربیٹی کو اور باقی ماندہ دو  حصے مرحوم کے بھتیجے کو ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے سو  (100) روپے میں سے 16,66 روپے ہر بیٹی کو، اور33,33 روپے  مرحوم کے بھتیجےکو ملیں گے۔

جس مکان میں مرحوم رہائش پذیر تھے وہ صرف بیٹیوں کے نام کرنے سے ان کی ملکیت نہیں بنا، بلکہ ترکے میں ہی شمار ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں