بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شعبان 1446ھ 07 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

چندہ دہند گان کی اجاز ت کے بغیر چندہ کسی اور کام میں لگانا درست نہیں


سوال

ہمارے مدرسہ کے اساتذہ نے ان فقیروں کے لیے جن کے رہنے کا مکان پانی کی کثرت سے منہدم ہو گیا تھا، 70 ہزار ٹکہ اور 200 سیر چاول چندہ کے طور پر لیا ، پھر 70 ہزار ٹکہ کے اسباب خرید کر فقراء کو دیا، اور چاول کے بارے میں مہتمم صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ اب فقیروں کو چاول کی ضرورت نہیں ،اس لیے  چاول مدرسہ میں رکھ دیے جائیں اور طلبہ کے لیے پکاۓ جائیں، پھر آئندہ جب میسر ہو  تو اس کے بدلے فقیروں کے لیے ٹکہ بھیج دیا جاۓ، کیا ایسا کرنا مہتمم صاحب کے لۓ جائز تھا؟  اگر یہ چاول مدرسہ میں پکایا جاۓتو طلباء  کھا سکتے ہیں؟  دلیل کے ساتھ وضاحت کرنے کی درخواست ہے ۔

 

جواب

واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے  چندہ کیا جائےیا جس کےلیے چندہ دیا جائےتو  وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کی جائے ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان  کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں۔

صورت مسئولہ میں   مہتمم صاحب نے  جوفیصلہ کیا  ہے کہ ’’اب فقیروں کو چاول کی ضرورت نہیں اس لیے  چاول مدرسہ میں رکھ دیے جائیں اور طلبہ کے لیے پکاۓ جائیں، پھر آئندہ جب میسر ہو  تو اس کے بدلے فقیروں کے لیے ٹکہ بھیج دیا جاۓ‘‘، تو شرعا ان کا یہ فیصلہ صحیح نہیں تھا،چندہ دہند گان کی اجاز ت کے بغیر مذکورہ چاول کھانا اور طلباءکو کھلانا درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات، 269/2، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - رجل جمع مالا من الناس لينفقه في بناء المسجد فأنفق من تلك الدراهم في حاجته ثم رد بدلها في نفقة المسجد لا يسعه أن يفعل ذلك فإن فعل فإن عرف صاحب ذلك المال رد عليه أو سأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف صاحب المال استأذن الحاكم فيما يستعمله وإن تعذر عليه ذلك رجوت له في الاستحسان أن ينفق مثل ذلك من ماله على المسجد فيجوز، لكن هذا واستثمار الحاكم يجب أن يكون في رفع الوبال أما الضمان فواجب، كذا في الذخيرة."

(كتاب الاوقاف، الباب الثالث عشر فى الاوقاف اللتى يستغنى عنها، 480/2، ط: دار الفکر)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإان لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف، 177/8، مکتبہ زکریا دیوبند)

امدادالفتاوی میں ہے :

’’سوال (۶۹۵):چندہ کے احکام وقف کے ہوں گے یا مہتمم  تنخواہ  مقررہ سے زائد  بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ  صراحۃ یا دلالۃ  انعام دینے پر  رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔‘‘

(کتاب ا لوقف ،ج:2،ص:560،ط:دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں