مسجد کے چندے کی رقم ایک لاکھ اکاوئنٹ میں ہو اور اس کو ایک سال ہو جائے تو اس پر زکاۃ ہوگی یا نہیں ؟
جو رقم چندہ یا عطیہ کے طور پر کسی کارِ خیر میں دی جاتی ہے وہ چندہ یا عطیہ دینے والوں کی ملکیت سے خارج ہوجاتی ہے اور اس کی حیثیت مالِ وقف کی ہوجاتی ہے ؛ اس لیے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی، زکوۃ شخصی ملکیت پر واجب ہوتی ہے۔
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي).
(قوله ملك نصاب) فلا زكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك."
(كتاب الزكاة،رد المحتار2/ 259ط:سعيد)
وفي الفقه على المذاهب الأربعة:
"الثاني: أن يكون مملوكاً لمالك معين بالشخص، فلا زكاة في الموقوف على المساجد، على الصحيح، إذ ليس لها مالك معين، كما لا زكاة في النخيل المباح بالصحراء إذا لم يكن لها مالك معين."
(كتاب الزكاة،زكاة الزرع والثمار،1/ 559الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100361
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن