بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاندی کے وزن کے اعتبار سے نفقہ کی مقدار مقرر کرنا درست نہیں


سوال

ایک شخص کا ایک دن کا نفقہ کتنے گرام چاندی کی قیمت میں مکمل ہوجائے گا ؟ذرا بتادیجیے،  پھر اسی حساب سے حج فرض ہونے کا نصاب معلوم ہوجائے گا، چاندی کے نصاب کے اعتبار سے؟

جواب

حج اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتاہے جس  کے پاس، اُس وقت جب کہ حکومت کی جانب سے حج کی درخواستیں جمع کی جاتی ہوں،   اتنی رقم موجود ہو جس سے:

  1. زندگی میں ایک بار مکہ مکرمہ تک آنے جانے کے سفر،
  2. اور وہاں پر کھانے، پینے ، رہنے اور قربانی وغیرہ کے خرچہ ،
  3. اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ کا بندوبست ہوسکتا ہے؛ تو ایسے شخص پر حج فرض ہوجاتا ہے۔

یعنی موجودہ زمانے میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے حج کرنے کے لیے جتنی رقم کا اعلان ہوتا ہے، ( اگر قرض دار ہو تو قرض کی رقم اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ کی رقم منہا کرنے کے بعد) کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس اتنی رقم موجود ہے، تو اس پر زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہوجاتا ہے؛  غرض زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات،  نیز اگر شادی شدہ ہو تواہل وعیال کے ضروری خرچے پورے کرنے کے بعد جب آدمی کے پاس اس قدر زائد رقم/مال موجود  ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (آمد و رفت اور وہاں کے قیام وطعام وغیرہ) پورے ہوسکتے ہوں،تو ایسے شخص پر حج فرض ہوجاتا ہے؛ اور اگر عورت ہوتو  حج پر جانے کے لیے اس کے ساتھ محرم کی موجودگی  بھی ضروری  ہے۔

قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ایک دن کا نفقہ/خرچہ ہر آدمی اور اس کے اہل و عیال کے لیے مختلف ہوتا ہے، لہذا چاندی کی ایک مخصوص مقدار کے اعتبار سے اس کی تعیین مشکل اور غیر معقول ہے؛اس سلسلے میں درست اندازے کے لیے متعلقہ فرد (اور اس کے اہلِ خانہ) کے روز مرہ اخراجات اور مالی حیثیت سے مدد لی جا سکتی ہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(على مسلم) لأن الكافر غير مخاطب بفروع الإيمان في حق الأداء وقد حققناه فيما علقناه على المنار (حر مكلف) .... (صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه (ذي زاد) يصح به بدنه فالمعتاد اللحم ونحوه إذا قدر على خبز وجبن لا يعد قادرا (وراحلة) .... (فضلا عما لا بد منه) كما مر في الزكاة.ومنه المسكن ومرمته ولو كبيرا يمكنه الاستغناء ببعضه، والحج بالفاضل فإنه لا يلزمه بيع الزائد.

نعم هو الأفضل وعلم به عدم لزوم بيع الكل والاكتفاء بسكنى الإجارة بالأولى وكذا لو كان عنده ما لو اشترى به مسكنا وخادما لا يبقى بعده ما يكفي للحج لا يلزمه خلاصة وحرر في النهر أنه يشترط بقاء رأس مال لحرفته إن احتاجت لذلك وإلا لا وفي الأشباه معه ألف وخاف العزوبة إن كان قبل خروج أهل بلده فله التزوج ولو وقته لزمه الحج (و) فضلا عن (نفقة عياله) ممن تلزمه نفقته لتقدم حق العبد (إلى) حين (عوده) وقيل بعده بيوم وقيل بشهر (مع أمن الطريق) بغلبة السلامة.

(قوله كما مر في الزكاة) أي من بيان ما لا بد منه من الحوائج الأصلية كفرسه وسلاحه وثيابه وعبيد خدمته وآلات حرفته وأثاثه وقضاء ديونه وأصدقته ولو مؤجلة كما في اللباب وغيره والمراد قضاء ديون العباد."

(کتاب الحج، ج2، ص 457تا463، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم ما ذكرنا من الشرائط لوجوب الحج من الزاد، والراحلة، وغير ذلك يعتبر، وجودها، وقت ‌خروج ‌أهل ‌بلده حتى لو ملك الزاد، والراحلة في أول السنة قبل أشهر الحج، وقبل أن يخرج أهل بلده إلى مكة فهو في سعة من صرف ذلك إلى حيث أحب؛ لأنه لا يلزمه التأهب للحج قبل ‌خروج ‌أهل ‌بلده؛ لأنه لم يجب عليه الحج قبله، ومن لا حج عليه لا يلزمه التأهب للحج فكان بسبيل من التصرف في ماله كيف شاء، وإذا صرف ماله ثم خرج أهل بلده لا يجب عليه الحج فأما إذا جاء، وقت الخروج، والمال في يده فليس له أن يصرفه إلى غيره على قول من يقول بالوجوب على الفور؛ لأنه إذا جاء وقت ‌خروج ‌أهل ‌بلده فقد وجب عليه الحج لوجود الاستطاعة فيلزمه التأهب للحج، فلا يجوز له صرفه إلى غيره كالمسافر إذا كان معه ماء للطهارة،وقد قرب الوقت لا يجوز له استهلاكه في غير الطهارة، فإن صرفه إلى غير الحج أثم، وعليه الحج، والله تعالى أعلم."

(کتاب الحج، ج2، ص125، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں