بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہنگائی کے دور میں قربانی واجب ہونے کے لئے چاندی کا نصاب مقرر کرنے کی وجہ


سوال

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر کیا قربانی کے نصاب کو ساڑھے سات تولہ سونے کے نصاب کے مطابق کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ جبکہ اگر چاندی کے نصاب کے مطابق رکھنے پر بہت زیادہ حرج بھی لازم آتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اصل نصاب چاندی کا نصاب ہے سونے کا نصاب اصل نہیں ہے،  بلکہ  دورِ نبوی میں ہر (10) درہم کا ایک مثقال بنتا  تھا، اس اعتبار سے سونے کا نصاب (20 )مثقال یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہے؛  لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  زکوۃ / قربانی واجب ہونے  کے لیے   معیار چاندی کا  نصاب ہی  ہے،  سونے کا نہیں، اس حوالے سے فتوی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔البتہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، اس کے ساتھ چاندی، مالِ تجارت، نقدی یا ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا سامان نہ ہو تو اس صورت میں سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن سونے کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی بھی چیز ہوگی تو چاندی کا نصاب ہی معتبر ہوگا، اور  صاحبِ نصاب کی وجہ سے قربانی لازم ہوگی، اور مہنگائی کے اس دور میں واجب قربانی  کی ادائیگی کے لیے  ضروری نہیں کہ  زیادہ رقم کا  جانور قربان کیا جائے، وجوب کی ادائیگی کے لیے تکلفات کےبغیر اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر چند  ہزار کا ایک حصہ کرلینا بھی کافی ہے، اور اس صورت میں حرج بھی نہ ہوگا۔

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:

"واستفاض أيضا أن زكاة الرقة ربع العشر، فإن لم يكن إلا تسعون ومائة فليس فيها شيء، وذلك لأن الكنوز أنفس المال يتضررون بانفاق المقدار الكثير منها، فمن حق زكاته أن تكون أخف الزكوات، والذهب محمول على الفضة، وكان في ذلك الزمان صرف دينار بعشرة دراهم ‌فصار ‌نصابه عشرين مثقالا."

(كتاب الزكاة، باب مقادير الزكاة، ج:2 ، ص: 67، ط: دار الجبل)

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"ليس فيما دون مائتي درهم صدقة لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ليس فيما دون خمس أواق صدقة» والأوقية: أربعون درهما،

فإذا كانت مائتي درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم؛ «لأنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كتب إلى معاذ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أن خذ من كل مائتي درهم خمسة دراهم، ومن كل عشرين مثقالا من ذهب نصف مثقال»

اعلم أن الدراهم كانت مختلفة في زمن عمر بن الخطاب - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وكانت على ثلاثة أصناف على ما ذكر في " الفتاوى الصغرى "، صنف منها كل عشرة عشرة مثاقيل، كل درهم عشرون قيراطا، وصنف منها كل عشرة ستة مثاقيل، كل درهم اثنا عشرة قيراطا، وهو ثلاثة أخماس مثقال، وصنف منها كل عشرة خمسة مثاقيل كل درهم نصف مثقال، وهو عشرة قراريط، وكان المثقال نوعا واحدا وهو عشرون قيراطا، وكان عمر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - يطالب الناس في استيفاء الخراج بأكبر الدراهم ويشق ذلك عليهم، فالتمسوا منه التخفيف، فشاور عمر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أصحاب رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فاجتمع رأيهم على أن يأخذ عمر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - من كل نوع ثلاثة، فأخذ عمر، فصار الدرهم بوزن أربعة عشر قيراطا، فاستقر الأمر عليه في ديوان عمر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وتعلقت الأحكام به كالزكاة والخراج ونصاب السرقة وتقدير الديات ومهر النكاح".

(فصل في الفضة، نصاب الزكاة في الفضة ومقدار الواجب، ج:3، ص:367، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں