بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چندہ کی رقم کو اسلامی بینک کے سیونگ اکاونٹ میں جمع کروانے کا حکم


سوال

  ایک فلاحی ادارے کو لوگ مستحقین کی مدد کے لیے رقوم دیتے ہیں اور وہ رقم ایک اسلامک بینک کے اکاؤنٹ (پرافٹ اینڈ لاس) میں جمع ہوتی ہے، کیونکہ اکاؤنٹ پرافٹ اور لاس کی بنیاد پر ہے تو ادارے کو اس رقم پر بینک کی طرف سے منافع ملتا ہے. برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ 1. کیا اس ادارے کا یہ فعل جائز ہے؟ 2. کیا حاصل کردہ رقم کا استعمال جائز ہے، کہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ نوٹ: ادارہ مخیر حضرات سے وصول کردہ رقم اور منافع مکمل طور پر مستحقین ہی کی مدد میں صرف کرتا ہے۔

جواب

۱) مذکورہ ادارہ کا مستحقین کی مدد کے لئے دی گئی رقوم کو کسی بھی قسم کے بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا جائز نہیں ہے خواہ روایتی سودی بینک ہوں یا مروجہ نام نہاد اسلامی بینک ہوں؛ کیوں کہ مستحقین کی مدد کے لیے دی گئی  رقم مذکورہ  فلاحی ادارہ  کے پاس رقم  دینے والوں کی طرف سے امانت ہوتی ہے اور وہ مستحقین پر خرچ کرنے کے لیے دی جاتی ہے ،  ادارہ کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ اس کو مستحقین پر خرچ کرے لہذا ادارہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس رقم کو کسی قسم کے بھی کاروبار میں لگائے ۔

۲)  مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات شرعی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے  جائز نہیں اور ان معاملات سے حاصل ہونے والا  منافع سود کے حکم میں ہے ؛  لہذا مذکورہ فلاحی ادارہ کو اسلامی بینک سے حاصل ہونے والے منافع حلال نہیں ہوں گے۔فلاحی ادارہ کو اگر بینک اکاونٹ استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو صرف کرنٹ اکاونٹ میں رقم جمع کروائیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرعًا: فهو إقامة الإنسان غيره مقام نفسه في تصرف معلوم حتى إن لم يكن معلوما يثبت به أدنى تصرفات الوكيل وهو الحفظ، وذكر في المبسوط: وقد قال علماؤنا فيمن قال لآخر: وكلتك بمالي: إنه يمتلك بهذا اللفظ الحفظ فقط كذا في النهاية."

(کتاب الوکالۃ، باب اول ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۶۰،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت

(قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ.

أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکاۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۶۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں