بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چندہ کے پیسوں سے تنخواہ دینا


سوال

ناچیز  ایک مدرسہ میں معلم ہے اور رمضان میں مدرسہ کے لیے چندہ بھی جمع کرتا ہے، اس سال بھی رمضان میں چندہ جمع کیا گیا. بقایا دو ماہ کی تنخواہ کے مطالبے پر ناظمِ مدرسہ نے کہا کہ وہ اپنی بقایا ماہ کی تنخواہ چندہ کی رقم سے وضع کرلو؛ کیوں کہ مدرسہ کے پاس موجودہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تنخواہ دینے کے لیے کسی طرح کی آمدنی موجود نہیں ہے. کیا معلم اس رقم سے اپنی تنخواہ وضع کرسکتا ہے؟  کیا ناظم کو اس کی اجازت دینے کا اختیار ہے، جب کہ چندہ میں زکوۃ کی بھی رقم ہوتی  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چندہ میں زکاۃ کی مد میں جمع ہونے والی رقم کا مصرف مدرسہ کے مستحقِ زکاۃ طلبہ  ہیں، اس رقم سے مدرسہ کے معلمین کی تنخواہ ادا کرنا درست نہیں۔ تاہم اگر چندہ میں زکوۃ کے علاوہ رقم جمع ہوئی ہو تو اس رقم سے کسی معلم کی تنخواہ دی جاسکتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جو چندہ مدرسہ کے لیے جمع کیا گیا ہے، اگر اس میں زکاۃ کے علاوہ رقم جمع ہوئی ہو تو اس رقم سے مدرسہ کی انتظامیہ کی اجازت سے معلم اپنی تنخواہ وصول کرسکتا ہے۔ زکاۃ کی رقم سے معلمین کی تنخواہ ادا کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس کا اختیار مدرسہ کے مہتمم کو ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا  تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا‘‘۔(ج۱۵ / ص۵۹۶) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں