ناچیز ایک مدرسہ میں معلم ہے اور رمضان میں مدرسہ کے لیے چندہ بھی جمع کرتا ہے، اس سال بھی رمضان میں چندہ جمع کیا گیا. بقایا دو ماہ کی تنخواہ کے مطالبے پر ناظمِ مدرسہ نے کہا کہ وہ اپنی بقایا ماہ کی تنخواہ چندہ کی رقم سے وضع کرلو؛ کیوں کہ مدرسہ کے پاس موجودہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تنخواہ دینے کے لیے کسی طرح کی آمدنی موجود نہیں ہے. کیا معلم اس رقم سے اپنی تنخواہ وضع کرسکتا ہے؟ کیا ناظم کو اس کی اجازت دینے کا اختیار ہے، جب کہ چندہ میں زکوۃ کی بھی رقم ہوتی ہے؟
واضح رہے کہ چندہ میں زکاۃ کی مد میں جمع ہونے والی رقم کا مصرف مدرسہ کے مستحقِ زکاۃ طلبہ ہیں، اس رقم سے مدرسہ کے معلمین کی تنخواہ ادا کرنا درست نہیں۔ تاہم اگر چندہ میں زکوۃ کے علاوہ رقم جمع ہوئی ہو تو اس رقم سے کسی معلم کی تنخواہ دی جاسکتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جو چندہ مدرسہ کے لیے جمع کیا گیا ہے، اگر اس میں زکاۃ کے علاوہ رقم جمع ہوئی ہو تو اس رقم سے مدرسہ کی انتظامیہ کی اجازت سے معلم اپنی تنخواہ وصول کرسکتا ہے۔ زکاۃ کی رقم سے معلمین کی تنخواہ ادا کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس کا اختیار مدرسہ کے مہتمم کو ہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا‘‘۔(ج۱۵ / ص۵۹۶) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201793
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن