بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں جمعہ کی نماز کے فورا بعد چندہ کرنے کا حکم


سوال

 اکثر مساجد میں جمعہ کے روز فرض کا سلام پھیرتے ہی ایک آدمی ڈبہ لے کر پوری مسجد میں چندہ اکٹھا کرتا ہے،  اور امام صاحب اس کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں،  اس کے بعد دعا ہوتی ہے،  اس طرح چندہ اکٹھا کرنا کیسا ہے؟

جواب

کسی دینی ضرورت مثلاً مسجد، مدرسہ وغیرہ کے لے چندہ کرنا شرعاً جائز ہے، نیز مسجد کے اندر چندہ کرنے کی صورت میں مندرجہ ذیل شرائط  کی رعایت رکھی جائے:

(۱) نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔(۲) نمازیوں کی گردنوں کو نہ پھلانگا جائے۔(۳) شور و شغب نہ ہو۔(۴) نمازیوں کے سامنے سے نہ گزرا جائے۔(۵) کسی کو غیرت دلا کر یا زیادہ اصرار کرکے دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔

تاہم جمعہ یا فرض نمازوں کے بعد سنن مؤکدہ سے قبل چندہ کرنا  مندرجہ ذیل  وجوہات کی بنا پر کراہت سے خالی نہیں ہے:

(۱) سنن مؤکدہ کی ادائیگی میں تاخیر ہوجاتی ہے، اور فرائض کے بعد مسنون اوراد و اذکار سے زیادہ تاخیر کرنے کو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے مکروہ لکھا ہے۔(۲) فرض اور سنن مؤکدہ کے درمیان کلام کرنا لازم آتا ہے، جس کے باعث ثواب میں کمی اور محلِ مسنون کے فوت ہوجانے کی فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے۔(۳) عموماً نماز با جماعت میں مسبوقین بھی ہوتے ہیں جن کے سامنے سے گزرنے میں بڑی بے احتیاطی کی جاتی ہے، اور نمازیوں کے سامنے سے گزرنا حدیث کی رو سے ناجائز ہے۔

البتہ مسجد کی ضروریات کے لیے چندہ کرنا ضروری ہو تو اس کے لیے بہتر صورت یہ اختیار کی جا سکتی ہے کہ جمعہ کے عربی خطبے سے پہلے پہلے یعنی اذانِ ثانی سے قبل نمازیوں کا خیال رکھتے ہوئے جلدی  سے  چندہ کر لیا جائے، اس دوران امام صاحب نمازیوں کو کوئی دینی مسئلہ بتلائیں یا کوئی اصلاحی بات کریں،  اسی طرح اردو خطبہ اور وعظ کے دوران بھی چندہ کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لا يمر بين يدي المصلي ولا يتخطى الرقاب ولا يسأل إلحافا بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج:2، ص:164، ط:سعید)

فیہ ایضاً:

"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة.

(قوله ارتفع الخلاف) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيها كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس.

(قوله وفي حفظي إلخ) توفيق آخر بين القولين، المذكورين، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد: أي القليلة التي بمقدار " اللهم أنت السلام إلخ " لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل،  وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية.

الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق."

(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج:1، ص:530، ط:سعید)

فیہ ایضاً:

"(ولو ‌تكلم ‌بين ‌السنة والفرض لا يسقطها ولكن ينقص ثوابها)وقيل تسقط (وكذا كل عمل ينافي التحريمة على الأصح).

(قوله ولو تكلم إلخ) وكذا لو فصل بقراءة الأوراد لأن السنة الفصل بقدر ’’اللهم أنت السلام إلخ‘‘ حتى لو زاد تقع سنة لا في محلها المسنون كما مر."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:20، ط:سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {لا يسألون ‌الناس ‌إلحافا} يعني والله أعلم: إلحاحا وإدامة للمسألة; لأن الإلحاف في المسألة هو الاستقصاء فيها وإدامتها وهذا يدل على كراهة الإلحاف في المسألة."

(سورۃ البقرۃ، آیت:273، ج:1، ص:561، ط: دار الکتب العلمیۃ)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن واثلة بن الأسقع، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع أصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع»."

(کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکرہ فی المسجد، ج:1، ص:247، رقم:750، ط:دار احیاء الکتب العربیۃ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن بسر بن سعيد أن زيد بن خالد أرسله إلى أبي جهيم يسأله ماذا سمع من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في المار بين يدي المصلي فقال أبو جهيم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه‘‘  قال أبو النضر لا أدري أقال أربعين يوما أو شهرا أو سنة.

قوله: (ماذا عليه) ، أي: من الإثم والخطيئة.

قوله: (أن يقف أربعين) ، وقد ذكرنا أن في رواية ابن ماجه: (أربعين سنة أو شهرا أو صباحا أو ساعة) ، وفي رواية البزار: (أربعين خريفا) وفي (صحيح ابن حبان) : عن أبي هريرة، قال: قال رسول ا: لو يعلم أحدكم ما له في أن يمر بين يدي أخيه معترضا في الصلاة كان لأن يقيم مائة عام خيرا له من الخطوة التي خطأ) ، وفي (الأوسط) للطبراني: عن عبد ابن عمرو مرفوعا: (إن الذي يمر بين يدي المصلي عمدا يتمنى يوم القيامة أنه شجرة يابسة) ، وفي المصنف عن عبد الحميد، عامل عمر بن عبد العزيز، قال: (لو يعلم المار بين يدي المصلي ما عليه لأحب أن ينكسر فخذه ولا يمر بين يديه) ، وقال ابن مسعود: (المار بين يدي المصلي أنقص من الممر عليه، وكان إذا مر أحد بين يديه التزمه حتى يرده) ، وقال ابن بطال: قال عمر، رضي اعنه: (لكان يقوم حولا خير له من مروره) . وقال كعب الأحبار: (لكان أن يخسف به خيرا له من أن يمر بين يديه)."

(کتاب الصلاۃ، باب اثم المار بین یدی المصلی، ج:4، ص:294، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں