جو چندہ صرف امام کی تنخواہ کے لیے جمع ہو،چاہے محلہ والے یہ چندہ جمع کریں یا عام لوگ جو جمعہ وغیرہ کے لیے مسجد میں آتے ہیں تو اس سے دو تین ہزار روپے مسجد میں لگانا کیسا ہے؟ جب کہ امام اس پر راضی نہ ہو، اور جتنے سالوں کی تنخواہ کاٹ کر مسجد کے چندہ میں جمع کی گئی ہے اس کا کیا حکم ہے امام کو واپس کرنی ہو گی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ چندے کی رقم کا حکم یہ ہے کہ چندے کی رقم جس مد کے لیے جمع کی گئی ہو اسی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ مصرف میں خرچ کرنے لیے چندہ دینے والوں کی اجازت ضروری ہے، اگر چندہ دینے والے اجازت دے دیں تو کسی اور مصرف میں اس کا استعمال جائز ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے یہ واضح نہیں کیا کہ امام کی تنخواہ ماہانہ مقرر ہے یا نہیں؟بہرحال اگر مقرر نہیں بلکہ جتنی جمع ہوتی ہے اتنی ہی دی جاتی ہو تو پھر امام کی تنخواہ کی مد کے لیے جمع کیے گئے چندہ کو امام کی تنخواہ میں صرف کرنا ضروری ہے، مذکورہ چندے کو مسجد کی ضروریات میں معطيین کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا درست نہیں ہے۔ اور اگر امام صاحب کی ماہانہ تنخواہ مقرر ہے تو اس مقررہ تنخواہ سے زائد چندہ ہو تو زائد رقم کے حق دار چوں کہ امام صاحب نہیں؛ اس لیے زائد رقم روکنا مسجد کمیٹی کے لیے جائز ہے، پھر جس ماہ میں امام کی تنخواہ کی مد میں رقم کم آئے اس ماہ کے ساتھ مذکورہ زائد رقم شامل کر کے ماہانہ تنخواہ پوری کر دی جائے۔مقررہ تنخواہ سے کٹوتی کر کے امام مسجد کی رضامندی کے بغیر جو رقم مسجد میں خرچ کی گئی ہےوہ امام کو واپس کرنا ضروری ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال الخيرالرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ."
( کتاب الوقف، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ج: 4، صفحہ: 361، ط: ایچ، ایم، سعید)
وفیه أیضًا:
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا".
(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین۔۔۔ ج: 4، صفحہ: 445، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101573
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن