بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چندہ کی رقم کسی اور جگہ خرچ کرنا


سوال

 ہمارے محلے میں ایک اصلاحی جلسہ منعقد ہوا تھا اور اس جلسہ کو مسجد کمیٹی نے امام صاحب کے ساتھ مل کر منعقد کیا تھا، اس اصلاحی جلسہ کے لیے  لوگوں نے چندہ دیا (واضح رہے کہ جلسہ کے لیے  مستقل چندہ کیا تھا مسجد فنڈ سے ایک روپیہ بھی جلسہ میں خرچ نہیں کیا ) اب پچاس ساٹھ ہزار روپیہ بچا ہوا ہے( واضح رہے کہ اب جو پیسہ بچا ہوا ہے اس کو کن کن لوگوں نے دیا تھا پہچاننا بہت مشکل ہے ) ، کیا ہم اس پیسہ کو مسجد کے کاموں میں لگاسکتے ہیں ؟ مثلاً مسجد کی چھت بنانے میں، امام کے لیے کمرہ بنانے میں، اسی طرح مسجد کی دیگر ضروریات میں، اور امام صاحب کی دیگر ضروری چیزوں کے خریدنے میں مثلاً چارپائی وغیرہ خریدنے میں خرچ کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے  چندہ کیا جائےتو  وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کی جائے ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان  کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں  جو چندہ   اصلاحی جلسہ  کے لیے   کیا گیا اور اس میں تقریبا ً پچاس ،ساٹھ  ہزار روپے بچے ہوئے ہیں  تو اسے چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر اس رقم کومسجد کے کاموں میں یا کسی اور جگہ  خرچ کرنا شرعا جائز نہیں؛ اس لیے  کہ مسجد  کمیٹی کی حیثیت محض امین اور وکیل کی ہے ۔

البتہ اگر چندہ ہندہ گان اس رقم کو مذکورہ جگہوں پر خرچ کرنے کی اجازت دیں تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،سعید)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟

قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإان لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف،ج:8،ص:177،مکتبہ زکریا دیوبند)

امدادالفتاوی میں ہے :

"سوال (۶۹۵):چندہ کے احکام وقف کے ہونگے یا مہتمم  تنخواہ  مقررہ سے زائد  بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ  صراحۃ یا دلالۃ  انعام دینے پر  رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔"

(کتاب لوقف ،ج:2،ص:560،ط:دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں