بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چندہ جمع کرکے صدقہ و خیرات کرنا یا قربانی کرنا


سوال

کسی  مصیبت کے ختم ہونے کے  لیے سب لوگوں سے چندہ وصول کرکے قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صدقہ  کرنا   کسی مصیبت سے محفوظ رہنے  اورآئی مصیبت کو دور کرنے  کا بہترین ذریعہ ہے، سننِ ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ المعجم الاوسط میں ہے: چپکے سے صدقہ کرنا اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔

المعجم الاوسط  کی دوسری روایت میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کرو، اس لیے کہ مصیبت اس سے آگے نہیں جاتی۔

سننِ ترمذی میں ہے: اللہ تعالی نے یحیی بن زکریا علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو حکم دیں کہ وہ صدقہ دیں،  صدقہ کی مثال اس آدمی کی ہے جسے دشمن نے قید کیا ہو اور اس کا ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیا ہو تاکہ اس کی گردن اڑادیں تو صدقہ آکر کہتا ہے کہ میں اسے کم یا زیادہ جتنا ہو اس کے بدلے اسے چھڑاتا ہوں، تو اسے چھڑا کر لے جاتا ہے۔

لہذا  بہتر یہ ہے کہ کسی مصیبت کے خاتمے کے لیے انفرادی طور پر چپکے سے صدقہ کیا جائے، اگر چندہ کرکے صدقہ کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، مگر اس سلسلے میں جبر نہ ہو، ریاء و نام و نمود سے بچنا بھی ضروری ہے۔ چوں کہ اجتماعی صدقہ میں طیبِ نفس (نفس کی خوشی و رضامندی)  یقینی نہیں ہے؛ اس لیے انفرادی صدقہ کیاجائے۔اجتماعی طورپر اگر چندہ کیا جائے اورپھر قربانی کی جائے تو واجب قربانی ادا نہ ہوگی۔صدقہ کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں کہ جانور ذبح کرنا ضروری ہے،  تاہم اگر یہ عقیدہ رکھے بغیر چندہ کرکے صدقے میں جانور قربان کردیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔  

سنن الترمذي (3 / 52):

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع عن ميته السوء".

المعجم الأوسط - (3 / 378):

"عن بهز بن أ حكيم عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن صدقة السر تطفئ غضب الرب تبارك وتعالى".

سنن الترمذي (5 / 148):

"عن زيد بن سلام أن أبا سلام حدثه أن الحارث الأشعري حدثه: أن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن الله أمر يحيى بن زكريا بخمس كلمات أن يعمل بها ويأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها وإنه كاد أن يبطئ بها، فقال عيسى: إن الله أمرك بخمس كلمات لتعمل بها وتأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها، فإما أن تأمرهم و إما أنا آمرهم، فقال يحيى: أخشى إن سبقتني بها أن يخسف بي أو أعذب، فجمع الناس في بيت المقدس، فامتلأ المسجد وتعدوا على الشرف، فقال: إن الله أمرني بخمس كلمات أن أعمل بهن وآمركم أن تعملوا بهن، أولهن: أن تعبدوا الله ... وآمركم بالصدقة؛ فإن مثل ذلك كمثل رجل أسره العدو فأوثقوا يده إلى عنقه وقدموه ليضربوا عنقه، فقال: أنا أفديه منكم بالقليل والكثير، ففدى نفسه منهم".

المعجم الأوسط (6 / 9) ط:دار الحرمين:

"عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: باكروا بالصدقة فإن البلاء لايتخطاها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں