بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاند گرہن کی روشنی میں سونا


سوال

جب چاند گرہن وغیرہ ہو تو کیا اس کی روشنی میں ہم سو سکتے ہیں؟  اس میں کوئی نقصان ہونے کا خدشہ تو نہیں؟بچے چھت پر سو رہے ہوں تو کیا ان کو اندر لٹا دیں یا باہر اس گرہن میں سو ئے رہیں؟

جواب

 چاند گرہن اور سورج گرہن کی وجہ سے عام انسانوں یا حاملہ خواتین پر مختلف قسم کے اثرات پڑنے سے متعلق عوام میں جو باتیں مشہور ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، سورج یا چاند گرہن کے وقت ایسی باتوں کی طرف دھیان دینے کے بجائے نماز اور استغفار و دعا کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اغلاط العوام میں ہے :

’’مشہور ہے کہ چاند اور سورج کے گہنے کے وقت کھانا پینا منع ہے، سو اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ البتہ وہ وقت توجہ الی اللہ کا ہے، اس وجہ سے کھانے پینے کا شغل ترک کردینا اور بات ہے۔ رہا یہ کہ دنیا کے تمام کاروبار، بلکہ گناہ تک تو کرتا رہے اور صرف کھانا پینا چھوڑ دے، یہ شریعت کو بدل ڈالنا اور بدعت ہے‘‘۔ (ص ۱۹۱، زمزم پبلشرز)

لہذا اگر کوئی شخص دن میں یا رات میں سورہا ہو یا کسی اور مصروفیت میں مشغول ہو تو سورج گرہن یا چاند گرہن کی روشنی سےسے بچنایا اپنے آپ کو کسی کمرے تک محدود رکھنالازم نہیں ہے۔ شرعی اعتبار سے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔ البتہ اگر ماہرینِ طب اس دوران کسی کے لیے کوئی احتیاط بتائیں تو اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی۔

گرہن سے قطع نظر جہاں تک چھت پر سونے کا تعلق ہے تو اگر اس کے اطراف میں منڈیر ہو تو چھت پر سونا درست ہے ، اور اگر چھت کے اطراف میں کوئی روک (منڈیر)نہیں ہے ، تو ایسی کھلی چھت پر سونے سے حدیث شریف میں شفقتاً منع کیاگیا ہے، کیوں کہ یہ احتیاط کے خلاف ہے، نیند، غنودگی یا نیند کی حالت میں چلنے کی وجہ سے آدمی اپنے آپ کو نقصان اور ہلاکت میں ڈال سکتا ہے ۔ 

سنن أبي داود (4 / 469):
"عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلِىٍّ - يَعْنِى ابْنَ شَيْبَانَ - عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « مَنْ بَاتَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَيْسَ لَهُ حِجَارٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ »". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں